صدر عارف علوی نے انتخابات کے وقت پر جاری بحث کے درمیان چیف الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نےعام انتخابات کی ایک نئی تاریخ کی تجویز دی ہے۔ اس بھیجے گئے خط پر مختلف سیاسی جماعتوں نےملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔
لکھے گئے خط میں صدر نے آئین کے آرٹیکل(5)48 پر زور دیا ہے جس کے مطابق انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کے 90 دن بعد سے زیادہ کی تاریخ طے نہ کریں .
9 اگست 2023 کو صدر علوی نے اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی سفارش پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا جس سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر بہت سے اہم اثرات مرتب ہوئے ہیں .
خط میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کو آرٹیکل 48 کے تحت تحلیل کیا جانا چاہیے اورعام انتخابات تحلیل ہونے کی تاریخ 90 دنوں کے اندر ہونے چاہیں جو کہ 6 نومبر 2023 کی تاریخ بنتی ہے۔
صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو اجلاس کے لیے مدعو کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آئین کے مطابق انتخابات کی تاریخ کیسے طے کی جائے لیکن چیف الیکشن کمیشنر نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ فیصلہ کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان پر منثر ہے یہ فیصلہ صدر کا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں | مالی بحران کی وجہ سے پی آئی اے کی پروازیں منسوخ, تنخواہوں میں تاخیر
چیف الیکشن کمیشنر 7 اگست کو مردم شماری 2023 کے اجراء کے بعد الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل (5)51اور سیکشن 17 کے مطابق حلقہ بندیوں کی حد بندی کر رہا ہے جو کہ قانون کے مطابق ایک لازمی عمل ہے .
وزارت قانون و انصاف اور تمام صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی اسی خیال کا اظہار کیا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ صدر علوی نے یہ بھی تجویز دی کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کروانے چاہیے ۔