اللہ جل شانہ کا کرم ہے کہ وہ وقتا فوقتا اپنے بندوں کو خود سے جوڑنے کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔نماز، زکوۃ، حج وعمرہ، رمضان،اعتکاف،قربانی، عاشورہ،شب براء ت، شب قدر ؛ یہ سب اسی کا اظہار ہے کہ بندہ جو دنیاوی کاموں میں لگ کر اللہ تعالی سے غافل ہوجاتا ہے وہ اس کی طرف پلٹے۔ اس کے سامنے سرجھکادیاور اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرے۔
قرآن کریم نے جن چار مہینوں کو اشہر حرم قرار دیا ہیان میں سے ایک ذوالحجہ ہے جس کی عظمت وتقدس دیگرمحترم مہینوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت:
ویسے تو ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل ِ احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کی عظمت و اہمیت کو بیان کیا ہے:
ترجمہ: قسم ہے فجر کے وقت کی، اور دس راتوں کی، اور جفت کی اور طاق کی۔
اس میں اللہ تعالی نے تین چیزوں کی قسم کھائی:
پہلی قسم فجر کے وقت کی ہے، بعض مفسرین نے اس آیت میں خاص دس ذو الحجہ کی صبح مراد لی ہے۔ (توضیح القرآن:3/1922)
دوسری قسم دس راتوں کی کھائی ہے۔ اکثر مفسرین نے ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے شروع کے دس دن لیے ہیں۔
تیسری قسم جفت اور طاق کی کھائی ہے۔ایک روایت میں ہے کہ جفت سے مراد دس ذوالحجہ(یعنی قربانی کا پہلا دن) اور طاق سے مراد عرفہ کا دن ہے۔
عشرہ ذی الحج کے دس مبارک اعمال:
قرآن کریم اور احادیث طیبہ سے عشرہ ذو الحجہ کے لگ بھگ 10 اعمال ثابت ہوتے ہیں:
نیک عمل:
حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ رسول ؐ نے ارشاد فرمایا:”اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوسرے ایام کا کوئی عمل عشر ذوالحجہ(یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ تک) کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! کیا یہ جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے؟ آپ ؐنے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے، ہاں! جو شخص جان اور مال لے کر اللہ کی راہ میں نکلا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا، سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کر دیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے۔“
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان دس دنوں میں کوئی سا بھی نیک عمل کیاجائے اس کا اجروثواب بڑھ جاتا ہے۔نماز، روزہ، تسبیح، استغفار، صدقہ وخیرات غرض کوئی بھی عمل ان دنوں انجام دیاجائے گا اس کے اجر میں اضافہ ہوگا۔
مسئلہ:
قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک نہ تووہ اپنے ناخن کترے، نہ سر کے بال مونڈے اور نہ بغل اور ناف کے نیچے کے بال صاف کرے، بلکہ بدن کے کسی بھی حصے کے بال نہ کاٹے۔ قربانی کرنے کے بعد ناخن تراشے اور بال کٹوائے۔یاد رہے! یہ عمل صرف مستحب ہے، لیکن آج کل لوگ اسے واجب سے زیادہ درجہ دے دیتے ہیں جس کی اصلاح ضروری ہے۔
مسئلہ:
اگر زیر ناف اور بغل کے بالوں پر چالیس روز کا عرصہ گزر چکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا واجب ہے۔
مسئلہ۔
اگر ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد کسی نے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لئیتو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ قربانی پر کوئی اثر پڑے گا، کیونکہ مذکورہ حکم کی حیثیت صرف استحباب(کرنے پرثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں)کی حد تک ہے۔
*جو قربانی نہ کرے:*
قربانی نہ کرنے والوں کیلئے بال نہ کاٹنا مستحب تو نہیں ہے لیکن اگر وہ بھی بال اور ناخن کاٹنے میں قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں تواللہ کی رحمت سے امید ہیکہ وہ ثواب سے محروم نہ ہوں گے۔
تکبیرِ تشریق:
نو ذوالحجہ کی فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بالغ مرد اور عورت پر ایک مرتبہ تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے۔
مسئلہ:
مرد تھوڑی اْونچی آواز سے اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔
تکبیر تشریق یہ ہے:
اَ للہُ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبراللہ اکبر ولِلّٰہ الْحَمْد پڑھنا
”واما اداۂ،فدبر الصلاۃ وفورھا من غیر ان یتخلل ما یقطع حرمۃ الصلاۃ،حتی لو ضحک قھقھۃ او احدث متعمدا او تکلم عامدا او ساھیا……..لا یکبر؛لان التکبیر من خصائص الصلاۃ.“
مسئلہ: اگر سلام کے بعد متصل تکبیرکہنا بھول گیا تو اگر نماز کے منافی کوئی کام نہیں کیا تو یادآنے پر پڑھ لینا چاہیے،لیکن اگر نماز کے منافی کوئی کام کرلیا تواب تکبیر تشریق کا وقت ہاتھ سے نکل گیا اب اس پر استغفار کرنا ضروری ہے۔
شبِ عید الاضحیٰ:
ارشادِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:”جس شخص نے دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔“
(الترغیب و الترہیب:98/2، منقول عن ابن ماجہ،درجہ:ضعیف)
9 *عیدالاضحیٰ کی نماز:
عید کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں یہ نیت کرے کہ میں چھ تکبیروں کے ساتھ عید کی دو رکعت واجب نماز پڑھتا ہوں۔ نیت کے مذکورہ الفاظ زبان سے کہنا ضروری نہیں،دل میں ارادہ کرلینا بھی کافی ہے۔ نیت کرکے ہاتھ باندھ لے اور ”سبحانک اللّٰہم“ آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے، ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے،تکبیر کے بعد ہاتھ لٹکادے، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے اور ”اعوذ باللہ“ اور”بسم اللہ“ پڑھ کر سورہ فاتحہ اورکوئی دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرکے کھڑا ہو، دوسری رکعت میں پہلے سورہ فاتحہ اور سورت پڑھ لے، اس کے بعد تین تکبیریں اسی طرح کہے، لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے۔
قربانی:
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”دس ذوالحجہ کے دن جانور کا خون بہانے سے بڑھ کرا للہ تعالیٰ کے ہاں بندے کا کوئی عمل بہتر نہیں ہوتا۔ یہ قربانی کے جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے۔ خون کے زمین پر گرنے سے پہلے ا? کے ہاں اس کا ایک مقام ہوتا ہے، لہٰذا تم یہ قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔“