بلوچستان کی پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات بشریٰ رند نے جمعرات کو کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے مبینہ خودکش بمبار کے زیر حراست شوہر کا دعویٰ ہے کہ اس کی بیوی "ذہنی طور پر بیمار” تھی۔
دو روز قبل جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر خودکش حملے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک جب کہ چار زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک برقعہ پوش خاتون کو کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے داخلی دروازے کے باہر کھڑا دکھایا گیا۔ خاتون نے اس وقت خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب وین انسٹی ٹیوٹ کے داخلی دروازے کے قریب پہنچی۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بعد ازاں حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تفتیش کاروں نے بمبار کی شناخت شری بلوچ کے نام سے کی جو دو بچوں کی شادی شدہ ماں تھی۔ بدھ کو سی ٹی ڈی کے اہلکار راجہ عمر خطاب نے کہا کہ ان کے شوہر، جن کی شناخت انہوں نے ڈاکٹر ہیبتن کے نام سے کی تھی، لاپتہ ہے اور ان کی اور دیگر سہولت کاروں کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں | پاکستان کی سستی ترین الیکٹرک کار متعلق جانئے
اس نے شوہر کے حوالے سے بتایا کہ اس کی بیوی اپنی دماغی بیماری کے لیے دوا لے رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ "بیرونی طاقتیں” بلوچ عوام کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ کمیونٹی کو بدنام کرنے اور اسے بری روشنی میں پیش کرنے کی "بزدلانہ کوشش” ہو۔ بلوچ قوم ایسی دشمنانہ سازشوں سے متاثر نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ خودکش دھماکہ ایک "افسوسناک واقعہ” تھا جس میں چینی اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا اور اس حملے کی شدید مذمت کی۔
ایک روز قبل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ کو نشانہ بنانا ’انتہائی قابل مذمت‘ اور بلوچ روایات کے خلاف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب ہم نے ایسا واقعہ دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح یاب ہوگی۔