بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی تازہ رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی حقیقی مجموعی قومی پیداوار (GDP) 2025 میں 4.8 فیصد اور 2026 میں 5.0 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یہ 2025 کے لیے ایک مثبت نظرثانی ہے جو یو اے ای کو دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں سے آگے رکھتی ہے اور دنیا کی اوسط متوقع شرح نمو 3.2 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔
اس شاندار کارکردگی کے اہم عوامل میں سیاحت، تعمیرات، مالیاتی خدمات، اور انفراسٹرکچر میں مسلسل سرمایہ کاری شامل ہیں۔
یو اے ای کا ماڈل اور پاکستان کے لیے اسباق
1. تیل سے ہٹ کر متنوع معیشت
یو اے ای کی ترقی صرف تیل پر انحصار نہیں کرتی۔ IMF کی رپورٹ واضح کرتی ہے ۔
پاکستان اگرچہ پہلے سے کچھ حد تک متنوع معیشت رکھتا ہے تاہم اسے بھی غیر اشیائی، تیز ترقی کرنے والے شعبوں جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہائی ویلیو مینوفیکچرنگ، اور سیاحت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ سے کم متاثر ہو۔
2. انفراسٹرکچر، سرمایہ کاری اور سیاحت
یو اے ای کی ترقی کا ایک بڑا سبب اس کی انفراسٹرکچر میں وسیع سرمایہ کاری اور سیاحت و خدمات کے شعبے ہیں۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، بڑھتی ہوئی آبادی اور سی پیک سے جڑی لاجسٹک مواقع اسے ایک بڑی ترقیاتی معیشت میں بدل سکتے ہیں۔ اگر پاکستان بھی جدید انفراسٹرکچر اور سیاحتی نظام پر فوکس کرے تو اس کی ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
3. مضبوط پالیسی اور مالی استحکام
IMF کے مطابق یو اے ای نے پالیسیوں میں تسلسل، مالی نظم و ضبط، اور اصلاحات کے ذریعے اپنی معیشت کو محفوظ بنایا ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مالی نظم کو برقرار رکھے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کو یقینی بنائے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے اور سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنائے۔
4. خطے سے بہتر کارکردگی
IMF کے مطابق 2025 میں یو اے ای کی شرح نمو مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے اوسط 3.5 فیصد سے کہیں زیادہ ہوگی۔
پاکستان کے لیے پیغام واضح ہے: درست اصلاحات اور پالیسیوں سے وہ جنوبی ایشیا کے خطے میں سب سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس کے لیے تعلیم، توانائی اور گورننس کے مسائل حل کرنا ناگزیر ہیں۔
5. برآمدات اور خدمات کی ترقی
IMF کے مطابق یو اے ای کی برآمدات (خصوصاً غیر تیل مصنوعات اور خدمات) میں اضافہ ہوا ہے جبکہ درآمدات کی رفتار کم رہی ہے۔
پاکستان کو بھی اپنی برآمدات میں ویلیو ایڈڈ مصنوعات جیسے ٹیکسٹائل، الیکٹرانکس، اور آئی ٹی خدمات کو فروغ دینا ہوگا۔ تجارتی معاہدوں، معیار میں بہتری اور لاجسٹک سہولیات پر کام ضروری ہے۔
چیلنجز اور خطرات
IMF نے خبردار کیا ہے کہ مضبوط معیشتیں بھی عالمی دباؤ جیسے تجارتی تنازعات، اجناس کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور خطے کی عدم استحکام سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
یو اے ای کے لیے رہائشی اور رئیل اسٹیٹ شعبہ قیمتوں کے دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے سبق یہ ہے کہ جیسے جیسے ترقی تیز ہو، مہنگائی اور بیرونی عدم توازن جیسے خطرات کو احتیاط سے سنبھالنا ہوگا۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے سفارشات
- ترقی کے تیز رفتار شعبوں پر توجہ: سیاحت، آئی ٹی، زراعت، قابلِ تجدید توانائی جیسے شعبے مستقبل کے انجن بن سکتے ہیں۔
- سرمایہ کاری میں اضافہ: قوانین میں آسانی، اعتماد بحال کرنا اور پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینا ضروری ہے۔
- انسانی وسائل اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری: تعلیم، توانائی، ڈیجیٹل نظام اور نقل و حمل پر توجہ ترقی کو مستحکم کرے گی۔
- مالیاتی استحکام برقرار رکھنا: محتاط مالیاتی پالیسی اور خودمختار مرکزی بینک معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
- برآمدات اور تجارتی تعلقات میں وسعت: نئے تجارتی معاہدے اور ویلیو ایڈڈ پروڈکشن پر توجہ دی جائے۔
- معاشی تنوع کو فروغ دینا: صرف زرعی یا کم قیمت مصنوعات پر انحصار ختم کر کے اعلیٰ معیار کی مصنوعات اور خدمات کو فروغ دینا ہوگا۔
IMF کی 4.8 فیصد کی پیش گوئی صرف ایک عدد نہیں بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ جب درست پالیسی، معاشی تنوع، اور سرمایہ کاری ایک ساتھ چلیں تو نتیجہ مستحکم ترقی کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان اگر یو اے ای کی طرح انفراسٹرکچر، اور انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کرے تو آنے والے برسوں میں اپنی معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔
یہ لمحہ پاکستان کے لیے بھی اصلاحات اور پالیسی تسلسل کو اپنانے کا موقع ہے تاکہ وہ عالمی معیشت میں اپنی جگہ مستحکم کر سکے۔