سوشل میڈیا پر چلغوزے کے باغات سے متعلق دعوے بے بنیاد
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے دعوے کہ پاکستان آرمی نے شمالی وزیرستان میں ایشیا کا سب سے بڑا چلغوزے کا باغ قائم کیا ہے اور اس سے سالانہ 2 ارب روپے کی آمدنی حاصل کر رہی ہے، غلط ثابت ہوئے ہیں۔
![سوشل میڈیا پر چلغوزے کے باغات سے متعلق دعوے بے بنیاد](https://urdukhabar.com.pk/wp-content/uploads/2025/02/سوشل-میڈیا-پر-چلغوزے-کے-باغات-سے-متعلق-دعوے-بے-بنیاد-622x1024.webp)
شوال ویلی کے باغات مقامی قبائل کی ملکیت ہیں
مقامی حکام اور باغات کے مالکان نے تصدیق کی ہے کہ شمالی وزیرستان کے چلغوزے کے جنگلات مکمل طور پر مقامی قبائل کی ملکیت ہیں، نہ کہ پاکستان آرمی کے۔ میران شاہ کے اسسٹنٹ کمشنر خالد عمران کے مطابق، یہ زمین وزیر اور محسود قبائل کی نجی ملکیت ہے اور حکومت کے پاس اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
فوج کا کردار صرف سیکیورٹی تک محدود ہے
حکام کے مطابق، فوج کا کردار صرف علاقے کی سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، جبکہ مقامی لوگ چلغوزے کے موسم میں خصوصی اجازت سے باغات میں جا کر فصل کاٹ سکتے ہیں۔ ضلع شمالی وزیرستان کے محکمہ جنگلات کے افسر سعید انور نے بھی تصدیق کی کہ فوج باغات کی دیکھ بھال یا چلغوزے کی پیداوار میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔
آن لائن ویڈیو میں فوج کی ملکیت کا ذکر نہیں
شوال ویلی میں ریکارڈ کی گئی ایک آن لائن ویڈیو میں بھی کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ فوج ان باغات کی مالک ہے یا اس سے آمدنی حاصل کرتی ہے۔ ویڈیو میں فرنٹیئر کور کے ایک افسر نے صرف چلغوزے کی اعلیٰ کوالٹی پر بات کی تھی، لیکن کچھ صارفین نے اس کا سیاق و سباق تبدیل کر کے غلط دعوے پھیلائے۔
![آن لائن ویڈیو میں فوج کی ملکیت کا ذکر نہیں](https://urdukhabar.com.pk/wp-content/uploads/2025/02/آن-لائن-ویڈیو-میں-فوج-کی-ملکیت-کا-ذکر-نہیں.webp)
چلغوزے کے کاروبار میں فوج کا کوئی مالی فائدہ شامل نہیں
چلغوزے کے ایک مقامی مالک ملک نیک امل خان وزیر نے بھی سوشل میڈیا پر پھیلنے والے دعووں کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ باغات صدیوں سے مقامی قبائل کے زیرِ ملکیت ہیں اور یہاں کی پیداوار 80 فیصد چین اور مشرق وسطیٰ کو برآمد کی جاتی ہے۔
ماہرین، سرکاری حکام، اور مقامی مالکان کے بیانات کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ فوج ان باغات کی مالک نہیں ہے اور یہ دعویٰ سراسر غلط اور گمراہ کن ہے۔