اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی احتجاجی کال کے حوالے سے وفاقی حکومت اور انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پارٹی کے ساتھ مذاکرات کریں اور ایک مناسب مقام پر مظاہرے کی اجازت دیں۔ عدالت نے یہ فیصلہ مظاہروں کے دوران امن و امان کی خراب صورتحال کو دیکھتے ہوئے دیا تاکہ شہری زندگی متاثر نہ ہو۔
عدالتی فیصلہ اور حکومتی ذمہ داری
چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں عدالت نے زور دیا ہے کہ احتجاج ایک بنیادی آئینی حق ہے لیکن یہ حق قانونی اور امن و امان کے اصولوں کے تحت استعمال ہونا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی غیر قانونی مظاہرے کی اجازت نہیں دی جائے گی خصوصاً ایسے جو عوامی زندگی کو مفلوج کریں یا امن خراب کریں۔
پی ٹی آئی کی درخواست اور عدالت کا ردعمل
پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں پریس کلب کے قریب احتجاجی ریلی کے لیے درخواست دی تھی۔ عدالت نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی آئی کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت کریں اور فیصلہ جلد از جلد سنائیں۔ اگر پریس کلب کا مقام ممکن نہیں، تو ایک متبادل مقام فراہم کیا جائے، جیسا کہ ایف-9 پارک۔
عدالت نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ مظاہرے کے دوران شہریوں کی نقل و حرکت میں خلل سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، عدالت نے یہ بھی کہا کہ سخت پابندیاں بھی شہری آزادیوں کے خلاف ہیں اور حکام کو توازن قائم رکھنا ہوگا۔
مظاہروں کی موجودہ صورتحال
پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں جس میں مظاہرین نے پتھراؤ کیا جبکہ پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ یہ مظاہرے اسلام آباد اور دیگر شہروں جیسے لاہور میں بھی دیکھے جا رہے ہیں، جس سے عام زندگی متاثر ہو رہی ہے۔