پی کے سرٹ کے مطابق 18 کروڑ سے زائد لاگ اِن تفصیلات عالمی ڈیٹا لیک میں چوری ہو چکی ہیں
چوری شدہ ڈیٹا میں گوگل، فیس بک، بینکنگ، صحت اور سرکاری اداروں کے اکاؤنٹس شامل ہیں
صارفین کو پاسورڈ تبدیل کرنے، ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن فعال کرنے اور پاسورڈ مینیجر استعمال کرنے کی ہدایت
نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (PKCERT) نے پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کو خبردار کیا ہے کہ ایک عالمی سطح کے بڑے ڈیٹا لیک میں 18 کروڑ سے زائد افراد کی لاگ اِن معلومات اور پاسورڈز چوری ہو چکے ہیں۔
ایک تفصیلی ایڈوائزری کے مطابق یہ ڈیٹا ایک پبلک فائل کی صورت میں دستیاب تھا جس میں 18 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ منفرد یوزر نیمز، پاسورڈز، ای میل ایڈریسز اور ویب ایڈریسز شامل تھے۔ حیران کن طور پر یہ تمام معلومات عام ٹیکسٹ میں محفوظ کی گئی تھیں یعنی نہ ہی انکرپشن کی گئی تھی اور نہ ہی پاسورڈ سے محفوظ تھیں۔
یہ چوری شدہ معلومات ان مشہور پلیٹ فارمز سے تعلق رکھتی ہیں:
گوگل
مائیکروسافٹ
فیس بک
انسٹاگرام
سرکاری ویب سائٹس
بینکاری (بینکنگ) پورٹلز
ہیلتھ کیئر پلیٹ فارمز
PKCERT کے مطابق یہ ڈیٹا انفوسٹیلر میلویئرکے ذریعے حاصل کیا گیا جو ایک قسم کا وائرس ہوتا ہے جو متاثرہ کمپیوٹر یا موبائل سے حساس معلومات چرا لیتا ہے۔ چوری ہونے والی معلومات غیر محفوظ حالت میں انٹرنیٹ پر پبلک کر دی گئی تھیں۔
PKCERT نے خبردار کیا ہے کہ اس ڈیٹا لیک کے باعث درج ذیل خطرات پیدا ہو سکتے ہیں:
اکاؤنٹ ہیک ہونا
شناخت کی چوری (آئیڈنٹیٹی تھیفٹ)
حساس ویب سائٹس تک رسائی
فشنگ حملے (جعلی ای میلز اور ویب سائٹس کے ذریعے دھوکہ)
سوشل انجینئرنگ حملے (شخصی معلومات کا غلط استعمال)
پرانے ای میلز اور پاسورڈز کے ذریعے میلویئر حملے
PKCERT نے تمام صارفین کو فوری طور پر یہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے:
اپنے تمام آن لائن اکاؤنٹس کے پاسورڈز فوراً تبدیل کریں خاص طور پر بینک اور سرکاری اکاؤنٹس کے۔
تمام اہم اکاؤنٹس پر ٹو-فیکٹر آتھنٹیکیشن (2FA) کو فعال کریں۔
ہر سروس کے لیے منفرد اور مضبوط پاسورڈ استعمال کریں۔
پاسورڈز کو ای میل یا غیر محفوظ فائلز میں محفوظ کرنے سے گریز کریں۔
ایک قابل اعتماد پاسورڈ مینیجر استعمال کریں۔
اپنی معلومات کے کسی ڈیٹا لیک میں شامل ہونے کی جانچ کے لیے معتبر ویب سائٹس استعمال کریں۔
ہر سال اپنے پاسورڈز کو تبدیل کرنے کی عادت اپنائیں۔
PKCERT نے زور دیا ہے کہ فوری حفاظتی اقدامات ضروری ہیں تاکہ آن لائن شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے اور مزید نقصان سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں : آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ سے ملاقات