پاکستان نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق حالیہ بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جمعرات کے روز دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں ترجمان دفتر خارجہ، سفیر شفقت علی خان نے راج ناتھ سنگھ کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بیان بھارت کی گہری عدم تحفظ اور پاکستان کی مؤثر دفاعی صلاحیتوں پر مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کی طرح ایٹمی دھمکیوں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ ہماری روایتی فوجی طاقت کسی بھی جارحیت کو روکنے کے لیے کافی ہے۔
سفیر شفقات علی خان نے مزید کہا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں بین الاقوامی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے ادارے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی ذمہ داریوں اور دائرہ اختیار کی سمجھ نہیں ہے جو دنیا بھر میں جوہری تحفظ اور اصولوں کی نگرانی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگانے کے بجائے اپنے ملک میں بار بار ہونے والے ایٹمی مواد کی چوری اور غلط استعمال کے واقعات کا جواب دے۔
دفتر خارجہ نے بھارت میں پیش آنے والے متعدد سنگین واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں ایک ریڈیوایکٹو آلہ کی چوری شامل تھی جو کہ بھارت کے بھابھا ایٹمی تحقیقی مرکز (BARC) سے غائب ہوا اور بعد میں دہرادون میں بازیاب ہوا۔ ایک اور واقعے میں ایک مجرمانہ گروہ کو کالیفورنیئم نامی خطرناک اور نہایت تابکار مادے کے غیر قانونی قبضے میں پکڑا گیا جس کی عالمی مارکیٹ میں قیمت تقریباً 10 کروڑ امریکی ڈالر ہے۔ صرف 2021 میں ہی بھارت سے کالیفورنیئم چوری کے تین علیحدہ علیحدہ واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
پاکستان نے ان واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سلسلہ بھارت کے ایٹمی پروگرام کی سیکیورٹی پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بھارت کے اندر تابکار مواد کی غیر قانونی خرید و فروخت کا بلیک مارکیٹ موجود ہو سکتی ہے۔ سفیر شفقات علی خان نے بین الاقوامی برادری اور IAEA جیسے اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان واقعات کی مکمل اور شفاف تحقیقات کریں اور بھارت کو اپنی ایٹمی تنصیبات اور مواد کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے پر مجبور کریں۔
پاکستان نے آخر میں زور دیا کہ بھارت کو غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کے بجائے ایٹمی تحفظ پر سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں : سندہ طاس معاہدہ کیا ہے؟ اور اس کی موجودہ صورتحال