اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعد دیگر ہائی کورٹس نے بھی عدالتی کاموں خصوصاً سیاسی معاملات میں ملک کے سیکیورٹی اداروں کی مداخلت کو تسلیم کر لیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت ایک ‘اوپن سیکرٹ’ تھی۔ ریاست کے انتظامی اداروں کی طرف سے سیاست، پارلیمانی نظام اور اعلیٰ عدلیہ کے عدالتی کام میں مداخلت ایک کھلا راز ہے۔
پشاور ہائیکورٹ نے مزید کہا ہے کہ جج اپنے حلف میں کسی بھی قسم کا دباؤ نہ لینے کی قسم اٹھاتا ہے اور یہ بھی کہ وہ انصاف کی فراہمی میں ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں جو انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو ججز کے کام میں مداخلت کی اجازت دے۔ یہ واضح طور پر قانون کی خلاف ورزی ہے۔
ججز کے ضابطہ اخلاق میں عدلیہ کے اندر ہونے والی مداخلت کی روک تھام کے لیے بھی کوئی قانون نہیں تاہم ارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک ایسا سیکرٹ ہے جو واضح ہے۔
خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کی کوششیں کیں اور جن ججز نے انکار کیا انہیں افغانستان اور دیگر زرائع سے دھمکیاں دی گئیں۔