حکومت کو 8 اگست کو تمام اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز
اہم حکمران اتحادی پارٹنر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے منگل کو وفاقی حکومت کو 8 اگست کو قومی اور تمام صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت اور تمام صوبائی اسمبلیاں آئندہ ماہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کریں گی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کے دوران، وزیر تجارت و سرمایہ کاری نوید قمر نے کہ کہ پی پی پی نے حکومت کو 8 اگست کو تمام اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دی ہے۔
اسمبلی کی مدت میں کوئی توسیع نہی ہو گی
ادھر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے واضح طور پر کہا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت میں کوئی توسیع نہیں ہوگی۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی خامیاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن)، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اور مختلف سیاسی جماعتوں کی تجویز کا جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے پارلیمانی باڈی کی سفارشات کو منظر عام پر لانے کے عزم کا اظہار کیا۔
یہ بیانات وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے ایک دن بعد سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو "سہولت” فراہم کرنے کے لیے اسمبلیاں 13 اگست کی مقررہ تاریخ سے پہلے تحلیل کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ‘آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ’ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسمبلیاں 13 کے بجائے 11 اگست کو تحلیل ہو جاتی ہیں تو ای سی پی کو انتخابات کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
انتخابات نومبر تک ملتوی
انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے رہنما نواز شریف واضح ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل اور انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں | پاکستان کو قرض دینے کے معاہدے پر فیصلہ کرنے کے لئے آئی ایم ایف کا اجلاس آج ہوگا
آئینی تقاضوں کے مطابق معاملات کو چلا رہے ہیں
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جنوری میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کو تحلیل کر دیا تھا جب کہ سندھ اور بلوچستان میں مقننہ کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کو بھی تحلیل ہونا باقی ہے۔ اینکر پرسن نے پھر وزیر سے پوچھا کہ کیا اسمبلیوں کی تحلیل میں تاخیر کا مقصد ای سی پی یا سیاست کو سہولت فراہم کرنا ہے؟ تو رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ 20 سے 30 دن کے فرق سے زیادہ فرق پڑتا ہے۔ ہم آئینی تقاضوں کے مطابق معاملات کو چلا رہے ہیں۔