پی ٹی آئی،حکومت کے مذاکرات ناکام ہوئے تو آئین کا استعمال کریں گے
چیف جسٹس (سی جے پی) عمر عطا بندیال نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے تو سپریم کورٹ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے آئین کا استعمال کرے گی۔
یہ وارننگ اس وقت جاری کی گئی ہے جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کرانے کی درخواست کی سماعت دوبارہ شروع کی۔
چیف جسٹس کے علاوہ تین رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کی جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اکتوبر میں پنجاب میں انتخابات کرانے کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔
ستائیس اپریل کو ہونے والی پچھلی سماعت میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مذاکرات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق اس کا 4 اپریل کا حکم نامہ بدستور برقرار ہے۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان روسٹرم پر پہنچے اور بتایا کہ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات پر اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت کو مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں | عطاء اللہ تارڑ نے عمران خان کی میڈیکل رپورٹ کو فیک قرار دے دیا
وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے پنجاب انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مشترکہ درخواست دائر کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں۔
وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال اور آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کے بارے میں پی ٹی آئی کو آگاہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے بھی خراب معاشی صورتحال پر اتفاق کیا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ جب کہ پی ڈی ایم اگست میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے پر رضامند ہو گئی ہے تو مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
جس کے جواب میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت کے جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر کیوں زور دیا گیا؟
انہوں نے کہا کہ عدالت میں معاملہ آئینی ہے سیاسی نہیں، عدالت سیاسی معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔