منگل کے روز تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین ملک کے مختلف حصوں میں شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں مبینہ طور پر ایک پولیس اہلکار اور تین تحریک لبیک کے کارکنان ہلاک ہوگئے ہیں۔
اس دوران سیکڑوں مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کرنے اور مرکزی سڑکیں اور شاہراہوں کو روکنے کے الزام میں ٹی ایل پی کے ہزاروں کارکنان اور حامیوں کو گرفتار کیا۔
وفاقی کابینہ نے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے رمضان کے مقدس مہینے کے دوران ملک کے تمام بڑے شہروں میں پاکستان رینجرز کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ عزم کیا کہ موجودہ حکومت ٹی ایل پی کے کسی بھی دباؤ کا شکار نہیں ہو گی۔
کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ہر گروپ کو احتجاج کا حق ہے اور ہم ٹی ایل پی سے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ، انہوں نے کہا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہے لیکن وہ کسی بھی گروپ سے کوئی حکم نامہ نہیں لے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسی بھی گروپ کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔ پرتشدد مظاہرین نے ان پر کلبوں ، اینٹوں اور آتشیں اسلحے سے حملہ کرنے کے بعد ، پنجاب میں 300 سے زائد پولیس اہلکار ، جن میں لاہور میں 97 افراد شامل تھے ، زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں | تحریک لبیک پاکستان کا ملک گیر احتجاج، شہر بند، شہری پریشان
زخمیوں میں گجرات کے ضلعی پولیس آفیسر اور کھاریاں ڈی ایس پی بھی شامل ہیں۔ اس دوران ہزاروں مظاہرین گرفتار ہوئے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان کے زرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پولیس کی جانب سے مختلف مقامات پر سیز فائز کھولے گئے جس سے متعدد کارکنان جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جبکہ مختلف جھڑپوں کے دوران پولیس نے بھی اپنے ایک اہلکار کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔
نائب امیر تحریک لبیک پاکستان نے نجی نیوز کو بتایا کہ حکومت نے ان سے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے قائد کو گرفتار کیا اور اب بھی حکومت دہشتگردی پر اتر آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب یہ احتجاج ان کے قائد کی رہائی پر نہیں بلکہ فرانسیسی سفیر کے ملک بدر ہونے پر ختم ہو گا۔
شیخ رشید نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے علامہ سعد رضوی کو رہا نا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مظاہرین کے ساتھ سختی سے نمٹنے اور آپریشن کرنے کی تیاریاں کر جا رہی ہیں۔
حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرارداد پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرے گی۔