سانحہ بلدیہ ٹاؤن سے متعلق جے آئی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں اور یہ رپورٹ منظر عام پر آ چکی ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کو 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے کے جرم میں جلایا گیا تھا۔ مزید برآں یہ کہ ہونے والے سانحہ بلدیہ میں عبد الرحمن اور حماد صدیقی شامل ہیں۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی ایف آئی آرز کو از سر نو درج کرنے کی بھی جی آئی ٹی کی جانب سے سفارش کی گئی تھی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ میں یہ موقف اختیار گیا تھا کہ بلدیہ ٹاؤن سانحے کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر عام قتل کی کاٹی گئی ہیں جن سے ملزمان کو فائدہ ہوا جبکہ یہ واقعہ دہشتگردی کا تھا تو ایف آئی آر دہشتگردی کی کٹنی چاہیے تھی۔ جی آئی ٹی کا موقف یہ ہے کہ بلدیہ ٹاؤن سانحے کا واقعہ شروع روز سے اس انداز سء چلایا گیا کہ جس میں ملزمان کا فائدہ ہو۔
رپورٹ میں جے آئی ٹی کی جانب سے یہ بھی لکھا گیا کہ کراچی پولیس کی جانب سے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے کیس کو غیر جانبدار نہیں چلایا گیا ہے۔ تاہم رپورٹ میں اب یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ سانحہ بلدیہ کی وجہ بھتہ نا دینا تھی، 20 کروڑ روپے بھتہ نا ملنے پر بلدیہ فیکٹری کو جلا دیاگیا۔
واضح رہے کہ بلدیہ ٹاؤن سانحہ 11 ستمبر 2012 کی شام کو پیش آیا جب علی انٹرپرائزز میں ایک خطرناک آگ لگی جس سے 260 گھرانوں کو چشم و چراغ موت کی نذر ہو گئے۔ ابتدائی طور پر خواتین سمیت 260 مزدوروں کے جل جانے کا مقدمہ فیکٹری اونر اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا جبکہ مختلف اوقات میں مختلف کمیٹیاض بنتی رہیں مگر سب بےسود اور کسی کے خلاف کوئی گرفتاری عمل میں نا لائی جا سکی۔
یہ معاملہ تب سامنے آیا جب 6 فروری 2015 ک2 عدالت میں رینجرز کی جانب سے ایک رپورٹ جمر کروائی گئی جس میں کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے یہ انکشاف کیا کہ بلدیہ ٹاؤن سانحے میں آگ لگی نہیں تھی بلکہ لگائی گئی تھی اور اس کی وجہ بھی بتائی کہ فیکٹری مالکان سے 20 کروڑ روپے کا بھتہ مانگا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ فیکٹری کو آگ لگانے میں سیاسی عہدیدار شامل تھے اور آگ لگانے کا حکم حماد صدیقی نے دیا جس کی وجہ بھتہ نا ملنا تھی۔
اس بات کے بات جے آئی ٹی بنائی گئی اور دبئی میں فیکٹری مالکان سے پوچھا گیا جس میں انہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا جس کے بعد جے آئی ٹی کی جانب سے بھانک ملزمان کے خلاف اس کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔