لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال کی سزا سنائی تھی۔ جج ارشد ملک کو وڈیو اسکینڈل آنے پر برطرف کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ فیصلہ وڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار سابق جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر برطرفی کا فیصلہ سنایا گیا۔ واضح رہے کہ جج ارشد ملک نے 2019 کو ایک اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے مدینہ منورہ میں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز، جاتی امراء میں میاں نواز شریف اور ناصر محمود بہت سے بھی ملاقات کی تھی۔
زرائع کے مطابق انہوں نے اپنے بیان حلفی میں کہا تھا کہ احتساب عدالت کے جج کی حیثیت سے فروری 2018 میں ان کی تقرری ہوئی اور ان سے دو جاننے والوں نے ملاقات بھی کی جن کا نام مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ ہے۔ ان میں نے ناصر جنجوعہ نے یہ دعوی بھی کیا کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ایک بار شخصیت کی خصوصی سفارش کے ساتھ انہیں احتساب عدالت کا جج لگایا گیا تھا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے جج ارشد ملک کی برطرفی کی منظوری دے دی ہے جبکہ اس کی تصدیق لاہور ہائی کورٹ کے زرائع نے کر دی ہے۔
چیف جسٹس کی زیر صدارت انتظامی کمیٹی کے اجلاس میں 7 سینئیر جج شریک تھے جنہوں نے سابق جج ارشد ملک کو نوکری سے برطرف کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
یاد رہے کہ سابق جج ارشد ملک کی جانب سے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا سنائی گئ تھی جبکہ فلہگ شیپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف کو باعزت رہا کیا گیا تھا۔
مزید برآں یہاں یہ بات اہم ہے 6 جولائی 2019 کو ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے اہم رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں جج ارشد ملک کی وڈیوز کو پیش کیا گیا تھا۔ ان لیک ہونے والی مبینہ وڈیوز میں جج ارشد ملک اس بات کا ذکر کر رہے ہیں کہ نواز شریف کا فیصلہ سناتے وقت ان پر دباؤ تھا اور اس فیصلے کے بعد ان کا ضمہر ان کو ملامت کرتا رہا۔ وڈیو لیک ہونے کے بعد جج ارشد ملک کی جانب سے اس وڈیو کی تردید کی گئی تھی اور ان کا بیان آیا تھا کہ ان پر کوئی ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ دباؤ نہیں تھا۔