وزیراعظم شہباز شریف نے آج قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ ملک و قوم کی خوشحالی کے لیے مل بیٹھ کر فیصلے کیے جائیں۔
شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ اگر عمران خان کو جیل میں مشکلات کا سامنا ہے تو اس مسئلے پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ قید کے دوران جو تکالیف انہیں اور ن لیگ کے دوسرے رہنماؤں کو عمران خان حکومت کے دوران پہنچائی گئیں، وہی سلوک اپوزیشن کے ساتھ روا رکھا جائے۔
اپنے خطاب سے پہلے قومی اسمبلی میں اپنی نشست سے اٹھ کر میاں شہباز شریف اپوزیشن بینچوں کی طرف گئے۔ وہاں مولانا فضل الرحمن سے گلے ملنے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں بشمول اپوزیشن رہنما عمر ایوب، اسد قیصر اور علی محمد خان کے پاس چل کر خود گئے اور ان سے ایک ایک کر کے ہاتھ ملایا۔
تحریک انصاف کی رہنما اور سنی اتحاد کونسل کی قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر زرتاج گل کو بھی وزیراعظم نے سلام کیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن رہنما عمر ایوب نے اسمبلی میں خطاب کیا اور وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ بات چیت اور مذاکرات تب ہوں گے جب بانی پی ٹی آئی اور جیلوں میں قید تحریک انصاف کے دوسرے رہنماؤں اور کارکنوں کو رہائی ملے گی۔
اب بات چیت یا مذاکرات ہوں گے یا نہیں، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا اپوزیشن رہنماؤں سے ہاتھ ملانا، انہیں مذاکرات کی دعوت دینا اور پھر عمر ایوب کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا مشروط جواب دینا، یہ سیاست کا وہ رخ ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کیونکہ ایک دوسرے سے دعا سلام کرنے، اخلاقی حدود کے اندر رہ کر اختلاف کرنے، شکوہ شکایت کرنے سے تلخ سیاسی ماحول کے ساتھ ساتھ نفرت کی اس سیاست کا خاتمہ ہوگا جس نے معاشرے میں ایک ایسی تقسیم پیدا کر دی ہے جو نہ پاکستان کے حق میں ہے نہ عوام کے فائدے میں۔
ابھی تک عمران خان نے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کو حکومت سے بات چیت کی اجازت نہیں دی لیکن وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ اپنی تلخیوں کو ختم کرنے پر کام کریں اور اپوزیشن کے ساتھ ایک سیاسی رابطہ رکھیں۔
تحریک انصاف کے اصل مسائل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں اور اسی لحاظ سے عمران خان کی خواہش ہے کہ وہ صرف اور صرف فوجی قیادت سے بات کریں۔ لیکن فوج کی طرف سے انہیں کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے اخلاقی جواز کو تحریک انصاف نہیں مانتی اور عمران خان سمیت دوسرے پی ٹی آئی رہنما شہباز شریف کو فارم 45 کا وزیراعظم پکارتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل حکومت تو اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ اگر ایسا بھی ہے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ شہباز شریف مقتدرہ کے اشاروں پر چلنے والے وزیراعظم ہیں، تو پھر بھی تحریک انصاف کو وزیراعظم کی مذاکرات کی دعوت قبول کر لینی چاہیے۔
جب اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں تو پھر شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ سمجھ کر مذاکرات کرنے میں تحریک انصاف کا کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ بات چیت اور مذاکرات سے نئے راستے کھلتے ہیں۔ جو شرط عمر ایوب نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے رکھی، اسی نکتے کو مذاکرات کی میز پر پہلے مطالبے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور پھر وزیراعظم اور حکومت پر چھوڑا جائے کہ کیا وہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے عمران خان کی سزاؤں کے خاتمے کے بعد ان کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
شہباز شریف حکومت کے ساتھ مذاکرات کو بالواسطہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات سمجھا جا سکتا ہے جس کا تحریک انصاف کو اگر فائدہ نہ ہو تو نقصان بھی کچھ نہیں ہو گا۔