وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ پیشکش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پی ٹی آئی نے مذاکرات کے تین ادوار کے بعد اچانک بات چیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟
پی ٹی آئی نے مذاکرات سے علیحدگی کی وجہ حکومت کی مبینہ عدم سنجیدگی کو قرار دیا۔ پی ٹی آئی کا مؤقف تھا کہ ان کے بنیادی مطالبات، جن میں "سیاسی قیدیوں” کی رہائی اور 9 مئی 2024 اور 24-27 نومبر 2024 کے واقعات پر عدالتی کمیشن کی تشکیل شامل ہے، پر حکومت نے کوئی عملی پیشرفت نہیں کی۔
یہ مذاکراتی عمل دسمبر کے آخر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب مہینوں کی کشیدگی کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ تاہم، مذاکرات کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 8 فروری کو عوامی جلسے منعقد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جو عام انتخابات کے پہلے سال کی یاد میں کیے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ 2024 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔
وزیرِاعظم کا مذاکرات جاری رکھنے پر اصرار
شہباز شریف نے کہا کہ وہ سیاسی تناؤ کو کم کرنا چاہتے ہیں اور خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ ملک مزید عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، وزیرِاعظم نے واضح کیا کہ حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ پی ٹی آئی کی مذاکراتی پیشکش کو قبول کیا تھا، لیکن پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل کو خود ہی ختم کر دیا۔
وزیرِاعظم کے مطابق، "ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور اسپیکر کی سرپرستی میں بات چیت کا آغاز ہوا۔ پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر دیے، اور ہماری کمیٹی نے جواب بھی تحریری طور پر دینے کی یقین دہانی کرائی۔ 28 جنوری کو اگلی ملاقات طے تھی، مگر پی ٹی آئی نے خود ہی مذاکرات چھوڑ دیے۔”
پی ٹی آئی کے ماضی کے رویے پر سوالات
وزیرِاعظم نے پی ٹی آئی کے ماضی کے رویے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب 2018 میں مسلم لیگ (ن) نے سیاہ پٹیاں باندھ کر پارلیمنٹ میں قدم رکھا تھا، تو اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور وہ اپوزیشن بنچوں سے ارکان نامزد کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ، "آج بھی ہم نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کی ہے اور 2018 میں تشکیل دی گئی ہاؤس کمیٹی کی طرح 2024 کے انتخابات کی جانچ پڑتال کے لیے نئی کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے۔ اسی طرح، نومبر 2024 اور 2014 کے احتجاجی واقعات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ بات چیت ہمیشہ دوطرفہ عمل ہوتا ہے۔”
ملک کو مزید نقصان نہیں اٹھانا چاہیے
شہباز شریف نے اپنی گفتگو کے دوران واضح کیا کہ وہ مکمل اخلاص کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں تاکہ ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ "پاکستان مزید عدم استحکام اور نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا،” انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا۔
مستقبل کا راستہ کیا ہوگا؟
اگرچہ حکومت نے مذاکرات کی بحالی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی پیشکش کی ہے، لیکن پی ٹی آئی کے فیصلے کے پیش نظر مستقبل کی صورتحال غیر یقینی ہے۔ اگر دونوں فریق لچک کا مظاہرہ کریں تو یہ مذاکرات سیاسی تناؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اگر کشیدگی برقرار رہی تو سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ سکتا ہے، جو معیشت اور ملکی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔