بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں کے ایک گروپ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب سیاحوں کی ایک بڑی تعداد گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑی علاقے کا لطف اٹھانے وہاں پہنچی ہوئی تھی۔ متعدد زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں کے مطابق کئی افراد کو گولیوں کے زخم آئے ہیں جن میں سے ایک کو گردن میں گولی لگی ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اچانک فائرنگ شروع ہوئی تو پہلے تو لوگوں نے سمجھا کہ شاید پٹاخے چل رہے ہیں لیکن جیسے ہی چیخ و پکار شروع ہوئی تو لوگ جان بچا کر بھاگنے لگے۔ ایک مقامی گائیڈ نے بتایا کہ وہ فائرنگ کی آواز سن کر جائے وقوعہ پر پہنچا اور زخمیوں کو گھوڑے پر اسپتال پہنچانے میں مدد دی۔ اُس کا کہنا تھا کہ اس نے کئی لاشیں زمین پر پڑی دیکھیں۔
یہ حملہ ایک سنسان علاقے میں ہوا اور حکام کو شبہ ہے کہ دو یا تین حملہ آور ملوث تھے۔ ٹی وی رپورٹس میں پہلے ایک شخص کی ہلاکت کی خبر دی گئی تھی لیکن بعد میں سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ ہلاکتیں 20 سے 26 کے درمیان ہو سکتی ہیں۔
کشمیری مزاحمت نامی ایک نامعلوم تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بیان میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں 85,000 سے زائد باہر کے افراد کشمیر میں لا کر بسائے گئے ہیں جو کہ علاقے کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے مزید دھمکی دی کہ ایسی بستیوں کے خلاف مزید حملے کیے جائیں گے۔ تاہم اس بیان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
اس واقعے کے بعد ملک کے سیاسی رہنماؤں نے شدید مذمت کی۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اسے بزدلانہ حملہ قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا اور بھارت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ وہ کشمیر جا رہے ہیں تاکہ اعلیٰ سطحی سیکورٹی اجلاس کی صدارت کریں اور مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے حکومت سے جوابدہی کا مطالبہ کیاہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اس واقعے پر ردِعمل آیا ہے ۔ امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس، جو ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور بھارت کے ساتھ مکمل حمایت کا اعلان کیاہے۔
کشمیر میں حالیہ برسوں میں تشدد میں کمی آئی تھی اور سیاحوں پر حملے کم ہو گئے تھے لیکن یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ خطے میں حالات مکمل طور پر معمول پر نہیں آئے۔ 2019 میں بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے غیر مقامی افراد کو یہاں رہائش اور جائیداد خریدنے کے حقوق دیے جس سے مقامی سطح پر بھی تناؤ بڑھا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی مزید خراب ہوئے۔ اس کے باوجود 2024 میں کشمیر میں 35 لاکھ سے زائد لوگوں نے سیاحت کی غرض سے یہاں کا رخ کیا۔
یہ بھی پڑھیں : پاکستان کا سلامتی کونسل سے مقبوضہ کشمیر کے حل کا مطالبہ