صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وفاقی فنڈنگ فراہم کرنے کا عمل روک دیا ہے جس کی مالیت 2.2 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب ہارورڈ نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھیجی گئی مطالبات کی فہرست کو مسترد کر دیا ہے۔
یہ مطالبات گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھیجے گئے تھے جن میں یونیورسٹی کی داخلہ پالیسیوں، تقرری کے طریقہ کار اور ڈی ای آئی (ڈائیورسٹی، ایکویٹی، انکلوژن) پروگرامز کو ختم کرنے جیسے وسیع پیمانے پر اصلاحات شامل تھیں۔ وائٹ ہاؤس نے مزید مطالبہ کیا تھا کہ ہارورڈ ایسے طلباء کو رپورٹ کرے جو امریکی اقدار کے خلاف خیالات رکھتے ہوں اور ساتھ ہی ان پروگراموں کی نگرانی کے لیے ایک سرکاری منظور یافتہ آڈیٹر کو ہائر کرے ۔
پیر کے روز ہارورڈ کے صدر ایلن گاربر نے یونیورسٹی کمیونٹی کو ایک خط میں آگاہ کیا کہ ادارہ نہ تو اپنی خودمختاری ترک کرے گا اور نہ ہی اپنے آئینی حقوق سے دستبردار ہوگا۔ انہوں نے حکومت کے مطالبات کو انتہائی مداخلت پسند قرار دیا حکومت تعلیمی اداروں کے فکری ماحول کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
گاربر کے خط کے چند گھنٹوں بعد امریکی محکمہ تعلیم نے اعلان کیا کہ وہ ہارورڈ کو دی جانے والی 2.2 ارب ڈالر کی گرانٹس اور60 ملین ڈالر کے معاہدے فوری طور پر روک رہا ہے۔ محکمہ تعلیم نے ہارورڈ کے مؤقف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے درمیان پائی جانے والی ایک خطرناک سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ ہارورڈ حالیہ برسوں میں وہ معیار برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے جو وفاقی فنڈنگ کے لیے ضروری ہوتے ہیں خاص طور پر یہودی طلباء کے تحفظ کے حوالے سے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ انتظامیہ کسی مشہور تعلیمی ادارے سے ٹکرا گئی ہو۔ اس سے قبل کولمبیا یونیورسٹی کی 400 ملین ڈالر کی فنڈنگ بھی منجمد کی گئی تھی تاہم بعد میں یونیورسٹی نے حکومت کے کچھ مطالبات مان لیے تھے۔
یہ معاملہ ایک بڑے رجحان کا حصہ ہے جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل غزہ تنازع اور یہود مخالف مظاہروں کے بعد امریکی جامعات پر زور دے رہی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں اور حکومت کی ہدایات پر عمل کریں۔