وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کو بالآخر 33 رکنی وفاقی کابینہ تشکیل دے دی ہے جبکہ حکمران اتحاد میں کچھ تلخی باقی ہے۔
اور حسب توقع صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نئی کابینہ کے ارکان سے حلف نہیں لیا ہے جبکہ یہ آئینی فریضہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ادا کیا ہے۔
اگرچہ 33 قانون سازوں نے حلف اٹھایا ہے لیکن کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں 26 وفاقی وزراء اور دو وزرائے مملکت کے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے تین مشیر بھی مقرر کیے ہیں۔
وزیراعظم آفس (پی ایم او) کے زرائع نے بتایا کہ کابینہ کے پانچ ارکان کے قلمدان جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے، ابھی زیر غور ہے۔ وہ خرم دستگیر خان، عبدالرحمن کانجو، ریاض پیرزادہ، سردار ایاز صادق اور مرتضیٰ جاوید عباسی ہیں۔
کچھ لوگوں نے کابینہ کو اس کے اراکین کے انتخاب کے حوالے سے "بہترین ممکن” قرار دیا ہے جن میں فنانس پر دو پی ایچ ڈی شامل ہیں – ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا۔ تاہم، حکمران اتحاد کی دو اہم جماعتیں – پاکستان مسلم لیگ-نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کابینہ کے لیے اپنے اراکین کے انتخاب اور محکموں کی تقسیم پر تقسیم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں | سوشل میڈیا ٹرینڈز: بوٹس کیا ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں؟
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی کابینہ کے ارکان کو مبارکباد دیتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے سخت محنت کریں اور کابینہ کا پہلا اجلاس (آج) بدھ کو طلب کر لیا۔
وزیراعظم نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وفاقی کابینہ کی تشکیل مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف اور حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ مکمل مشاورت کے بعد کی گئی۔
مجھے پوری امید ہے کہ وفاقی وزراء، وزرائے مملکت اور مشیر قیادت فراہم کریں گے اور عوام کے مسائل حل کریں گے۔ کام، کام اور صرف کام ہمارا نصب العین ہے۔
تاہم، مسلم لیگ (ن) کے زرائع کو بتایا کہ کابینہ کے ارکان کے انتخاب اور ان کے درمیان محکموں کی تقسیم پر پارٹی کے اندر اختلافات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز پارٹی کے تجربہ کار رہنماؤں کے ناموں پر غور نہ کرنے پر وزیر اعظم سے "ناخوش” ہیں۔
دوسری جانب بلاول بھٹو اپنے معاملات شہباز کی بجائے نواز سے طے کرنے کے لئے لندن روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ موجودہ سیاسی حالات پر مشاورت کریں گے۔