زرائع کے مطابق قطر اگلے ماہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرے گا جبکہ قطر کی جانب سے اس موقع پر ایک سخت شرط بھی رکھی جائے جو کہ فی الحال اس پر عمل درآمد ہونا ناممکن سا لگتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو ریاستی حل کے تحت فلسطین کی الگ ریاست قائم کی جائے۔
یہ بات خلیج کے ایک رپورٹر، جو متعدد ممالک میں حکومت کے اعلی عہدے داروں سے منسلک ہیں، نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتائی کہ دوحہ اب امریکہ کی ثالثی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے آپشن پر غور کر رہا ہے۔
یہ بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ امارات نے اسرائیل سے تعلقات قائم کئے تو قطر اس کے خلاف ایک مضبوط آواز بلند کی۔ قطر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ قطر فلسطین کے مسئلے پر اپنے مضبوط مؤقف کی تصدیق کرتا ہے اور اسرائیل سے تعلقات کے لئے اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور یروشلم کے فلسطین کے دارالحکومت بننے کے ساتھ ایک آذاد فلسطینی ریاست کی شرط رکھی گئی ہے۔ یہودی ریاست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قطر حکومت کے بیان کے علاوہ قطری میڈیا نے بھی امارات اسرائیل امن معاہدہ کے خلاف خوب کمپین چلائی تھی۔
قطر اور اسرائیل کے مابین ممکنہ معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ یہ معاہدہ اگلے مہینے کے اوائل میں تشکیل پائے گا جس کے بعد قطر یہودی ریاست کے ساتھ سرکاری معاہدے پر دستخط کرنے والی تیسری خلیجی ریاست بن جائے گی۔
یاد رہے کہ سن 2017 میں متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر کے تجارت معطل کردی تھی اور ساتھ اپنے فضائیہ کو بند کردیا تھا۔ اس پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کی تحریک کی حمایت کرتے ہیں جبکہ یہ تنظیم خطے کی متعدد ریاستوں میں ایک دہشت گرد تنظیم سمجھی جاتی ہے۔
زرائع کے مطابق اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے بدلے میں ، واشنگٹن خلیجی ریاستوں پر دباؤ ڈالے گا اور انہیں قطر کا بائیکاٹ ختم کرنے پر مجبور کرے گا۔