اپریل 30 2020: (جنرل رپورٹر) مختلف نجی چینلز پر حکومت کی طرف سے قادیانیوں کو قومی کمیشن برائے اقلیت میں شامل کرنے کی خبر چلائی گئی جس کے بعد اس فیصلے پر سوشل میڈیا میں شدید بحث چھڑ گئی- مذہبی تنظیموں نے اس فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی اور دیگر تحفظات کا اظہار کیا ہے
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے اس متعلق اپنے وڈیو بیان میں کہا کہ ابھی تک قادیانیوں کو اقلیتی کونسل کا ممبر بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا- اقلیتی کمیشن میں ممبران کی شمولیت کا معاملہ کچھ روز پہلے زیر غور آیا تھا تاہم اس بات کا فیصلہ ابھی کابینہ کی طرف سے ہونا باقی ہے کہ قادیانی بطور غیر مسلم اقلیتی کمیشن میں شامل ہوں گے یا نہیں- انہوں نے کہا کہ ہم اس متعلق تمام معاملات کو دیکھیں اور وہی فیصلہ ہو گا جس میں ختم نبوت کا تحفظ ہو گا- عقیدہ ختم نبوت ہمارا ایمان ہے اور اس پر کسی قسم کا بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے
دوسری جانب وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کو اقلیتی کیمشن کا ممبر بنابا کسی طور پر قابل قبول نہیں- قادیانی تو آئین پاکستان کو مانتے ہی نہیں اور نا ہی اقلیت تسلیم کرتے ہیں- جب تک قادیانی خود کو اعلانیہ غیر مسلم اقلیت تسلیم نا کر لیں تب تک ان کو کسی سرکاری و غیر سرکاری عہدے پر نہیں بٹھایا جا سکتا
عالمی مجلس ختم نبوت کے رہنماؤں نے کہا کہ حکومت کا قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہ بدترین قادیانیت نوازی ہے- قادیانی کوئی مذہب نہیں بلکہ فتنہ ہے اور فتنہ کا تعاقب کیا جاتا ہے
نجی ٹی وی چینلرز پر خبر چلنے کے بعد ق لیگ کے سربراہ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بیان دیا کہ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن کا ممبر بنانا آئین پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہے- قادیانی خود کو غیر مسلم تسلیم ہی نہیں کرتے نا ہی آئین پاکستان کو مانتے ہیں- انہوں نے کہا کہ ایسے کسی فیصلے سے پہلے سب کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی- حکومت سے اپنا فیصلہ واپس لینے کی تجویز بھی دے دی
تاہم وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا- قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن کا ممبر بنانا ہے یا نہیں فیصلہ کابینہ کرے گی- وہی فیصلہ ہو گا جو ختم نبوت کے مطابق ہو گا