سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کی رائے شماری یا ووٹنگ خفیہ نہیں ہو سکتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 4 بٹا 1 کی اکثریت سے فیصلے کا اعلان کیا ہے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اختیار ہے کہ وہ سینیٹ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے تمام تر اقدامات کرے۔ الیکشن آرڈر میں کہا گیا ہے کہ انتخابی عمل سے برے طریقوں کا خاتمہ الیکشن کمیشن کی ہی ذمہ داری ہے اور وہ اس سلسلے میں ٹیکنالوجی کو استعمال کر سکتا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ ووٹنگ کس طرح خفیہ رہنی چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ تمام ادارے الیکشن کمیشن ی کی پیروی کرنے کے پابند ہیں البتہ پارلیمنٹ آئینی ترامیم کو منظور کرسکتی ہے۔
بینچ نے مزید کہا کہ بیلٹ پیپر کی رازداری کا فیصلہ حتمی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ دے سکتا ہے۔
یاد رہے کہ عدالت نے گذشتہ ہفتے دونوں فریقین کو اپنے دلائل پر بات کرنے کے بعد اپنی رائے محفوظ کی تھی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا تھا کہ عدالت آئین کی دفعات کی ترجمانی کرکے اپنی رائے دے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ آئین کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی کہ وہ شفافیت کو یقینی بنانے کے انتظامات کرے۔
وفاقی وزیر نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے مطابق سینیٹ کے انتخابات ہوں گے۔
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا کہ ان کی رائے ہے کہ سینیٹ انتخابات کو آئینی شقوں کے مطابق ہی ہونا چاہئے اور اس عمل میں کوئی بھی تبدیلی اگر ہو تو پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہونی چاہئے۔