سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو اس پچھلے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں جس میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔
یہ اپیلیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت شہداء فورم بلوچستان جیسے اداروں کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جنہوں نے اکتوبر 2024 کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ اس پانچ رکنی بینچ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 9 مئی 2024 کے فسادات میں ملوث عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئین کے خلاف ہے۔ یہ فسادات سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد شروع ہوئے تھے جن میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے تھے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ فوجی تنصیبات پر منظم منصوبے کے تحت حملہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دن شام 3 بجے سے 49 مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں فوج پر اس طرح کے حملے کبھی نہیں ہوئے حتیٰ کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر بھی نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 9 مئی کے واقعات میں غفلت برتنے پر تین اعلیٰ فوجی افسران جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل بھی شامل ہیں کو پنشن کے بغیر ریٹائر کر دیا گیا تھا۔
تاہم ججز نے کئی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے پوچھا کہ آیا مظاہرین کا اصل ارادہ حملہ کرنا تھا یا نہیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ عدالت کا کام یہ دیکھنا ہے کہ عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ہے یا نہیں نہ کہ 9 مئی کے واقعات کی تفصیل میں جانا۔ دوسرے جج صاحبان نے یہ بھی پوچھا کہ کیا کسی فوجی افسر کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کیے گئے؟ اور یہ کہ فوجی قوانین میں مناسب ترامیم کیوں نہیں کی گئیں؟
عدالت کو بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں نے پہلے ہی 85 شہریوں کو سزائیں سنائی ہیں جن میں سے 25 کو دسمبر 2024 میں دو سے دس سال قید کی سزائیں دی گئیں۔ کچھ دن بعد مزید 60 افراد کو بھی ایسی ہی سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں سے 19 افراد کی رحم کی اپیلیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر منظور کر لی گئیں جبکہ 48 کیسز اپیلٹ کورٹس میں زیر سماعت ہیں۔
ان فوجی ٹرائلز پر پاکستان کے اندر سے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے ٹرائلز بین الاقوامی قوانین کے منافی ہیں۔
اب سپریم کورٹ کا متوقع فیصلہ نہ صرف پاکستان میں عدالتی نظام کے لیے اہم ہو گا بلکہ یہ فوجی اور شہری عدالتی دائرہ اختیار کے درمیان حد بندی طے کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں : جسٹس علی باقر نجفی نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا