سپریم کورٹ آف پاکستان نے حال ہی میں تاحیات نااہلی کے مقدمات سے متعلق الجھن کو دور کرنے کے لیے کارروائی میں قدم رکھا۔ یہ اقدام پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی سابق رکن شمعونہ بادشاہ قیصرانی کی جانب سے دائر درخواست کے جواب میں سامنے آیا ہے، جنہیں 2007 میں جعلی ڈگری کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
یہ مسئلہ آئین کے آرٹیکل 62 ایفوان کے گرد گھومتا ہے، جس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین کو ‘صادق اور امین’ (ایماندار اور صالح) ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے نے ثابت کیا کہ اس آرٹیکل کے تحت نااہلی عمر بھر کی سزا ہے۔ تاہم، 2023 میں الیکشنز ایکٹ میں بعد میں کی گئی ترمیم نے اس طرح کی نااہلی پر پانچ سال کی حد متعارف کرائی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے فیصلے اور حالیہ ترمیم کے درمیان ظاہری تضاد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے آئندہ 2024 کے عام انتخابات میں ابہام سے بچنے کے لیے وضاحت کی ضرورت پر زور دیا۔
درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس کا فیصلہ آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہو گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ کیس 2018 کے انتخابات سے منسلک ہے، آئندہ انتخابات سے متعلق ہے؟
یہ بھی پڑھیں | مسلم لیگ ن کے رہنماؤں پر الیکشن میں تاخیر کا الزام: نیئر بخاری
عدالت نے ابہام کے امکانات کو تسلیم کیا اور انتخابات کے لیے واضح قانونی فریم ورک کی اہمیت پر زور دیا۔ ججوں نے 2018 کے فیصلے اور ترمیم شدہ الیکشنز ایکٹ کے درمیان تضادات کے اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، 8 فروری 2024 کو ہونے والے آئندہ انتخابات سے قبل ایک حل کی ضرورت پر زور دیا۔
عدالت کا مقصد ان قانونی تضادات کو فوری طور پر دور کرتے ہوئے ایک منصفانہ اور شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانا ہے۔ جیسے جیسے کیس سامنے آئے گا، اس کے اثرات نواز شریف اور عمران خان جیسے سیاستدانوں پر پڑیں گے، جنہیں ماضی میں اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان میں انتخابی منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گا۔