کراچی کے علاقے سلطان آباد میں خانہ بدوشوں نے ایک بار پھر عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے جانوروں کا گوشت بغیر فریج کے کئی ماہ تک محفوظ کرنے کا قدیمی طریقہ اپنایا ہے۔ بجلی سے محروم اس بستی میں خانہ بدوشوں نے روایت کے مطابق گوشت کو پتلا کاٹ کر نمک اور مرچ لگا کر دھوپ میں خشک کیا ہے تاکہ یہ مہینوں تک خراب نہ ہو۔
یہ طریقہ کار صدیوں پرانا ہے اور اس میں گوشت کو دھوپ میں خشک کر کے اس کا پانی نکال دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران نمک اور مرچ گوشت کو نہ صرف محفوظ رکھتے ہیں بلکہ اس کے ذائقے میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کے مطابق دھوپ لگنے سے گوشت کی غذائیت اور ذائقہ بھی بڑھ جاتا ہے، جسے وہ مختلف پکوانوں میں استعمال کرتے ہیں۔
سلطان آباد کی خانہ بدوش بستی میں عید الاضحیٰ کے بعد گوشت محفوظ کرنے کا یہ عمل ایک بڑے تہوار کی مانند منایا جاتا ہے۔ ہر سال عید کے بعد یہ لوگ بڑی خوشی سے گوشت کو محفوظ کرتے ہیں تاکہ آنے والے مہینوں میں ان کے پاس غذائیت سے بھرپور گوشت موجود رہے۔ اس دوران، کچھ گوشت فوری طور پر پکا کر کھایا جاتا ہے جبکہ باقی کو خشک کر کے طویل عرصے کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
خانہ بدوشوں کا کہنا ہے کہ گوشت کی قیمتیں بہت بڑھ جانے کے سبب وہ عام دنوں میں مرغی کی گردنوں، پنجوں اور کلیجی استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ مگر عید کے موقع پر قربانی کا گوشت ملنے کے بعد وہ اب قدرتی طریقے سے محفوظ شدہ مزیدار گوشت کھا سکیں گے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ طریقہ نہ صرف سستا ہے بلکہ اس میں گوشت کا ذائقہ اور غذائیت بھی برقرار رہتی ہے۔
یہ قدرتی منی فوڈ فیکٹری نہ صرف ان کی غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ ان کی ثقافتی اور روایتی اقدار کو بھی زندہ رکھتی ہے۔ خانہ بدوشوں کے لیے یہ قدیمی طریقہ ان کی بستی میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، جو انہیں موجودہ دور کی مشکلات کے باوجود اپنی روایتوں سے جوڑے رکھتا ہے۔
خانہ بدوش بستی کے لوگ گوشت کو مختلف انداز میں پکانے کی بھی مہارت رکھتے ہیں۔ جب وہ محفوظ شدہ گوشت استعمال کرتے ہیں تو اس سے بننے والے پکوان نہایت لذیذ اور خوشبودار ہوتے ہیں، جو ان کے کھانوں میں ایک منفرد ذائقہ پیدا کرتے ہیں۔ اس قدیمی طریقے نے انہیں نہ صرف غذائی تحفظ فراہم کیا ہے بلکہ ان کی ثقافتی شناخت کو بھی برقرار رکھا ہے۔
اس طرح سلطان آباد کے خانہ بدوش بغیر فریج کے گوشت محفوظ کر کے نہ صرف اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں بلکہ اس سے ان کی ثقافت اور روایات بھی زندہ رہتی ہیں۔