الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے منگل کو کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 34 غیر ملکی شہریوں سے ‘ممنوعہ فنڈز’ وصول کیے اور پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے اس متفقہ فیصلے کا اعلان آج کیا جو رواں سال جون میں محفوظ کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ پارٹی سے منسلک 13 ‘نامعلوم’ اکاؤنٹس پائے گئے ہیں اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے جمع کرایا گیا حلف نامہ بھی ‘جھوٹا’ ہے۔
عمران خان نے پی پی او کے آرٹیکل 13(2) کے حوالے سے ای سی پی کو ذاتی طور پر سرٹیفکیٹ جاری کیے تھے کہ پی ٹی آئی "ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول نہیں کرتی” یعنی اس طرح پی ٹی آئی غیر ملکی امداد یافتہ سیاسی جماعت نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ پارٹی نے آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی کی ہے۔
سچائی اور طاقت کے درمیان جنگ
کیس کے درخواست گزار، پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے فیصلے کے اعلان کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے "اس جنگ” میں "فتح” پر اللہ اور اپنی مرحومہ والدہ کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا ک "ہم ایک پہاڑ سے لڑ رہے تھے۔ یہ سچائی بمقابلہ طاقت کی جنگ تھی اور ہم جیت گئے۔
یہ بھی پڑھیں | عمران خان کی پنجاب کے ایم پی اےز کو الیکشن کی تیاری کرنے کی ہدایت
یہ بھی پڑھیں | سبطین خان نے بطور پنجاب اسمبلی اسپیکر حلف لے لیا
بابر نے کہا کہ اس معاملے میں ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں بلکہ قوم کو فائدہ ہوا کیونکہ پاکستانی سیاست کو ایک اہم تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کو قانون کے تحت آزمایا جائے۔
غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ نہیں
پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے کہا کہ پارٹی نے برقرار رکھا ہے کہ "یہ غیر ملکی فنڈنگ کیس نہیں ہے، یہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ہے”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں نے کیس کا بیانیہ "فارن فنڈنگ” کے حوالے سے آگے بڑھایا وہ اس بات پر سخت مایوس ہیں کہ آج پی ٹی آئی پر پابندی نہیں لگائی گئی اور اسے صرف شوکاز نوٹس دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نوٹس کا جواب دیں گے”۔
ملیکہ بخاری نے فرخ حبیب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کے خلاف میڈیا گروپس آج "امید کھو چکے ہیں”۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی اس قسم کی جماعت نہیں ہے کہ وہ غیر ملکی فنڈنگ قبول کرے، تاہم اس کے خلاف ’پروپیگنڈے‘ کو برسوں سے آگے بڑھایا گیا ہے۔
ان کے مطابق پی ٹی آئی کی فنڈنگ کی انکوائری کے لیے 2018 میں تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں لیکن ان کی رپورٹس کو کبھی پبلک نہیں کیا گیا کیونکہ ان میں پارٹی کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی” کو ایک آئینی ادارے کے ذریعے سائڈ پہ لگایا جا رہا ہے۔