شعر و نغمہ کو انقلابی پیرہن عطا کرنے والے فیض اس لحاظ سے اپنے معاصر شعرا میں ممتاز نظر آتے ہیں کہ انھوں نے تنقید حیات کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے عشق کے روایتی تصور کو بدل ڈالا۔
اردو شاعری میں اقبال کے بعد جن تخلیق کاروں نے ادب اور زندگی کے باہمی رشتوں کو معنویت عطا کی اور ظلم و جبر کی دیرینہ روایت کے خلاف مظلوم اقوام کی مضبوط آواز بن کر ابھرے، ان انقلابی شاعروں میں فیض احمد فیض (پیدائش: 13 فروری 1911، انتقال: 20 نومبر 1984) کا نام احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
شعر و نغمہ کو انقلابی پیرہن عطا کرنے والے فیض اس لحاظ سے اپنے معاصر شعرا میں ممتاز نظر آتے ہیں کہ انھوں نے تنقید حیات کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے عشق کے روایتی تصور کو بدل ڈالا اور اپنے مجازی محبوب کو محبت میں گرفتار ہونے کے بجائے استحصال زدہ عوام کی محبت کو متاع حیات تصور کیا۔ اس سلسلے میں ان کی مشہور زمانہ نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ کو بطور استدلال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اپنی اس نظم میں فیض نہایت درد مندی اور عاجزی کے ساتھ اپنے روایتی محبوب سے معذرت کرتے ہوئے شکست خوردہ انسانیت کی حمایت کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈرامائی عناصر سے بھرپور اس نظم کے پہلے حصے میں شاعر مادی حسن کے سراب میں گم نظر آتا ہے، پھر اچانک ہی یہ طلسم ٹوٹ جاتا ہے اور محبوب کی آنکھوں میں کائنات کا حسن تلاش کرنے والا شاعر خواب غفلت سے بیدار ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد قاری کی ملاقات ایک ایسے دانشور اور انسانیت کے غم خواہ سے ہوتی ہے جس کی زندگی کا بنیادی ہدف زندگی کے ماند پڑتے حسن کو تابندگی عطا کرنا ہے۔ اس نظم کا ہر اک شعر قاری کی فکر کو مہمیز کرتا ہے اور اسے زیست کے معنی بھی بتاتا ہے:
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
یوں تو فیض نے مختلف مکاتب ہائے فکر و فن سے خوشہ چینی کی ہے لیکن ان کی بنیادی شناخت ایک ترقی پسند شاعر کی ہے۔ انھیں تیسری دنیا کے عوام کا نمائندہ شاعر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ فیض ترقی پسندوں کے سب سے محبوب شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے زندگی کا مطالعہ بہت قریب سے کیا۔ انھوں نے ظلم و جبر کی مکروہ روایات، غاصب انگریزوں کے شرمناک مظالم، سرمایہ دارانہ نظام کی بھٹی میں جھلس رہے غریب کسان و مزدور اور پامال ہو رہی انسانیت کے چشم کشا مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ جس نے انھیں سخت ترین ذہنی اضطراب میں مبتلا کر دیا اور جب اس اضطراب نے شدت اختیار کی تو یہ انقلابی نغمے فضاؤں میں گونجنے لگے:
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
اے ظلم کے مارو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے
فیض کی شخصیت اس لحاظ سے بھی عہد ساز تصور کی جاتی ہے کہ ان کے افکار و نظریات اور ان کے کردار میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا ہے۔
جب صدیوں کی جدوجہد کے بعد ہند کے افق پر آزادی کا سورج طلوع ہوا تو چہار جانب ایک عجیب منظر تھا۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آ چکا تھا۔ اس تقسیم کے خونی منظر نے آزادی کے جشن کو افسردہ کر دیا۔ فیض نے اس تاریخی موقع پر ہزاروں معصوم شہریوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ’صبح آزادی‘ کے عنوان سے یہ فکر انگیز کلام تخلیق کیا:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
اپنے پیش رو اقبال کی مانند ہی فیض بھی تہذیب مشرق کے پروردہ صالح فکر کے حامل تخلیق کار تھے۔ یہ ان کے استاذ مولوی میر حسن کی فیض تربیت کا بھی اثر تھا کہ وہ ترقی پسند افکار و نظریات سے متاثر ہونے کے باوجود کبھی اسلامی شعار اور اسلامی تعلیمات سے غافل نہیں ہوئے۔ ارضِ فلسطین سے ان کی جذباتی وابستگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ فیض بھی مشرق کی مغرب کے اوپر روحانی برتری کے معترف تھے۔ ان کی تخلیق کردہ نظمیں ’فلسطینی بچے کی لوری‘، ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ اور ’رسم دعا‘ اس سلسلے میں دلیل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔