جون 06 2020: (جنرل رپورٹر) وفاقی حکومت کی جانب سے پینشن کا نیا نظام لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کہ جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ ملازم بھی حصہ ڈالے گا- ایک محکمہ کی جانب سے اس موجودہ پینشن نظام کو "پینشن بم” سے تعبیر کیا گیا جس کا مطلب یہ کہ یہ نظام بہتر یا تبدیل نا ہونے کی صورت میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے
زرائع کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ پنجاب اور سندھ میں صورتحال ابتر ہے- حکومت نے پہلے سے پے اینڈ پینشن کنیشن قائم کر رکھی ہے جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ نئے پینشن سسٹم پر غور کرے تا کہ حکومتی خزانے پر پینشن سسٹم زیادہ بوجھ نا پڑے اور نئے پینشن ااٹم میں حکومت کے ساتھ ساتھ ملازم بھی شامل ہو
اندازہ لگایا گیا ہے کہ آئیندہ سال کے بجٹ میں وفاقی ملازمین کی پینشن کا بوجھ 470ارب روپے تک پہنچ جائے گا جبکہ تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا بل 700 ارب روپے ہے لہذا اگر اگلے بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے تو تنخواہ اور پینشن دونوں میں ہو گا
آئی ایم ایف حکومت سے توقع کر رہا ہے کہ اگر پاکستان تنخواہوں, پنشنوں, حکومت چلانے کے اخراجات, دفاعی اخراجات اور دیگر سبسڈیاں کم نہیں کر سکتا تو کم از کم ایک جگہ منجمد کر دے- آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات کم کرے اور قرضوں کی ادائیگیوں پر زور دے- حکومت خود بھی اس سلسلے میں پریشان ہے کہ صرف تنخواہوں اور پینشنز میں اضافے کے باعث ہی وفاقی حکومت کو دس ارب کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا
تفصیلات کے مطابق اس نئے پینشن نظام میں حکومت بھی بنیادی رقم ادا کرے گی جبکہ ملازم بھی اپنا حصہ ڈالیں گے تا کہ بوجھ صرف حکومت پر نا رہے- عام طور پر حکومت ایسے فنڈز کو سرمایہ کاری میں خرچ کرتی ہے تا کہ جب کوئی ملازم پینشن کا اہل ہو تو اس کو وہ رقم اضاے کے ساتھ پیش کی جا سکے- حکومت اپنے ملازمین سے صرف یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ تب ان کو سہولتیں دے گی جب وہ پینشن کے اہل ہو جائیں گے- اس طرح بالآخر جو رقم سرمایہ کاری میں استعمال کی جاتی ہے ملازمین کو ہی لوٹا دی جاتی ہے
اس نئے طریقہ کار سے نا صرف حکومت پر بوجھ کم ہو گا بلکہ پاکستان کی کیپیٹل مارکٹس کو بھی مزید فروغ دیا جا سکے گا