پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال اور آن لائن آزادیوں کے حوالے سے پی ای سی اے (پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) 2025 کی حالیہ ترمیم نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس ترمیمی بل نے حکومت کی جانب سے آن لائن مواد کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو مزید شدت سے آگے بڑھایا ہے، جس سے صارفین کے لیے ایک نیا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
پی ای سی اے 2025
پی ای سی اے کا اصل مقصد سوشل میڈیا پر بے جا مواد اور ہراسانی کو روکنا تھا، لیکن اس کے ذریعے حکومت نے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب 2015 میں پی ای سی اے کا ابتدائی مسودہ پیش کیا گیا تھا، تو اس میں ایسی دفعات شامل کی گئیں جو صحافیوں اور سیاسی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے استعمال کی جا سکتی تھیں۔ اور آج 2025 میں، ان خدشات کو حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔
فیک نیوز اور نقصان دہ مواد: مجرمانہ کارروائی کا خطرہ
پی ای سی اے کی نئی ترمیم کے مطابق، اب فیک نیوز پھیلانے کو مجرمانہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی سوشل میڈیا پر جان بوجھ کر کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹا مواد شیئر کرتا ہے، تو اسے تین سال تک قید اور 2 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی شکایات کے لیے نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) تشکیل دی گئی ہے، جو ان الزامات کی تحقیقات کرے گی۔
کیا واٹس ایپ بھی سوشل میڈیا کی تعریف میں آتا ہے؟
یہ ترمیم اتنی وسیع ہے کہ اس کے تحت واٹس ایپ، سگنل، ٹیلی گرام جیسے میسجنگ ایپس کو بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے کسی بھی واٹس ایپ گروپ میں اگر کسی نے یہ محسوس کیا کہ آپ نے جھوٹا مواد شیئر کیا ہے، تو وہ آپ کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے۔
غلط مواد کی روک تھام اور سوشل میڈیا پر قابو
حکومت نے اس ترمیم کے ذریعے ایک نیا ادارہ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (SMPRA) تشکیل دیا ہے، جو "غیر قانونی” مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس میں وہ مواد شامل ہے جو پاکستان کی سلامتی، دفاع یا اسلام کے خلاف ہو یا جو آئینی اداروں جیسے عدلیہ اور فوج کے بارے میں تنقید پر مبنی ہو۔
مواد کے حذف ہونے کی صورت میں آپ کا حقِ اپیل
اگر آپ کا مواد اس اتھارٹی کی جانب سے حذف یا بلاک کیا جاتا ہے، تو آپ کے پاس ٹریبیونل میں اپیل کرنے کا حق ہوگا۔ لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ٹریبیونل کا فیصلہ وفاقی حکومت کی جانب سے نامزد کردہ افراد پر مشتمل ہوگا، جس سے اس کے آزادانہ فیصلے پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر آپ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں تو آپ کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اختیار ہوگا، لیکن یہ بہت سست عمل ہو سکتا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ میں کیسز کا بیک لاگ اور سنیچر کا وقت زیادہ ہو سکتا ہے۔
اس ترمیم کا اثر: ہماری آن لائن زندگی میں تبدیلی
ان تمام تر اقدامات کا مقصد سوشل میڈیا پر اظہار رائے کو دبانا اور سرکاری موقف کو مضبوط کرنا ہے۔ اب سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ یا شیئر کرتے وقت ایک بار پھر سوچنا پڑے گا کہ کہیں یہ آپ کے لیے قانونی مسائل کا سبب نہ بن جائے۔ یہ ترمیمیں نہ صرف صحافیوں بلکہ عام سوشل میڈیا صارفین کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہیں۔
پی ای سی اے 2025 کی یہ ترمیمی شکل ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ان تمام خدشات کو حقیقت میں بدل رہی ہے جو پہلے ہی اس قانون کے بارے میں اٹھائے گئے تھے۔ اس کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کو پابند کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے ڈیجیٹل حقوق کی پامالی کی نئی لہر اٹھ سکتی ہے۔
اس کا واحد حل ڈجیٹل حقوق کے محافظ کی حیثیت سے ہم سب کا تعاون اور اس ترمیم کے خلاف آواز اٹھانا ہے تاکہ ہمارے آن لائن حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔