پاکستان نے بائیڈن-مودی مشترکہ بیان پر امریکی سفیر کو احتجاجی مراسلہ تھما دیا
پاکستان نے پیر کو دفتر خارجہ میں امریکہ (یو ایس) کے ڈپٹی چیف آف مشن (ایف او) کو طلب کیا اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر جو بائیڈن کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے امریکہ-بھارت مشترکہ بیان کے حوالے سے احتجاجی مراسلہ تھمایا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کو آج شام وزارت خارجہ میں بلایا گیا اور انہیں 22 جون کے امریکہ بھارت مشترکہ بیان کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ مشترکہ بیان میں پاکستان کے غیرضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن حوالہ جات پر پاکستان کے تحفظات اور مایوسی سے امریکہ کو آگاہ کیا گیا۔
امریکہ کو ایسے بیانات جاری کرنے سے گریز کرنا چاہیے
اس میں مزید کہا گیا کہ اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکہ کو ایسے بیانات جاری کرنے سے گریز کرنا چاہیے جن کو پاکستان کے خلاف بھارت کے بے بنیاد اور سیاسی طور پر محرک بیانیہ کی حوصلہ افزائی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
بیان کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا گیا کہ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی تعاون بہتر طور پر آگے بڑھ رہا ہے اور یہ کہ اعتماد اور افہام و تفہیم کے گرد مرکوز ماحول پاک امریکہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور بائیڈن دونوں نے سرحد پار دہشت گردی، دہشت گرد پراکسیوں کے استعمال کی شدید مذمت کی اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کرے کہ دہشت گردانہ حملوں کے لئے اس کے زیر کنٹرول کوئی بھی علاقہ استعمال نہ ہو۔
صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں بشمول القاعدہ، آئی ایس آئی ایس/دایش، لشکر طیبہ (ایل ای ٹی)، جیش محمد (جے ای ایم)، اور حزب الاسلام کے خلاف ٹھوس کارروائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں | عام انتخابات کی تاریخ بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں: قمر زمان کائرہ
گمراہ کن بیان
اس سے قبل دفتر خارجہ (ایف او) نے پاکستان کے خلاف جاری ہونے والے امریکہ اور بھارت کے مشترکہ بیان کو ’گمراہ کن اور غیر ضروری‘ قرار دیا تھا۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اس حوالے سے میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ (اور بھارت کے مشترکہ بیان میں پاکستان سے متعلق حوالہ کو غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن سمجھتے ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے نوٹ کیا کہ یہ ریفرنس سفارتی اصولوں کے منافی ہے اور اس کا سیاسی اثر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم حیران ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف قریبی تعاون کے باوجود اسے شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی منصوبہ بندی کی منتقلی پر گہری تشویش ہے۔