افغان حکومت کے ساتھ عملی تعلقات
پاکستان اور روس کا افغان حکومت کے ساتھ ‘عملی تعلقات’ پر زور
روس اور پاکستان نے بدھ کو دو طرفہ بات چیت میں افغانستان کے طالبان کے ساتھ "عملی تعلقات” کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
طالبان حکومت پر خواتین کے حقوق
تاہم انہوں نے طالبان حکومت پر خواتین کے حقوق اور جامع طرز حکمرانی پر بین الاقوامی خدشات کو دور کرنے تک باقاعدہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
افغانستان کے لیے روس کے سفیر ضمیر کابلوف نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت میں اپنے وفد کی قیادت کی اور انھیں رواں ماہ کے آغاز میں کابل میں طالبان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
طالبان کو تسلیم نہیں کر رہے
ضمیر کابلوف نے کہا کہ روس طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن وہ طالبان کو تسلیم کرنے پر غور نہیں کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں | الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا اور پنجاب کے گورنرز کو انتخابات کی تاریخیں تجویز کر دیں
یہ بھی پڑھیں | معاشی بدحالی اپنی جگہ؛ اراکین پارلیمنٹ کو 90 ارب روپے ملیں گے
ذرائع نے روسی سفیر کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے طالبان کو سیاسی طور پر ایک جامع حکومت بنانے اور خواتین پر پابندیوں میں نرمی کی طرف بڑھنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ بصورت دیگر ان کی قانونی حیثیت کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی افغانستان کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔
افغان حکومت کے ساتھ عملی روابط کی ضرورت پر زور
ضمیر کابلوف کی نائب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقات کے بعد ٹوئٹر پر ایک مختصر پاکستانی بیان شائع کیا گیا جس میں کہا گیا کہ دونوں فریقین نے افغان حکومت کے ساتھ عملی روابط کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پاکستان طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم
ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی فریق نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے پر غور نہیں کر رہا ہے اور وہ ایسا صرف عالمی برادری کے ساتھ مل کر کرے گا۔
وزارت خارجہ نے بعد میں جاری ہونے والے ایک باضابطہ بیان میں ملاقات کی چند تفصیلات پیش کیں اور افغان حکام کو تسلیم کرنے کے معاملے کا ذکر نہیں کیا۔