حال ہی میں وفاقی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ پر عائد پابندی کو ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ اقدام سیاسی مذاکرات اور ملک میں امن و استحکام کے قیام کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پی ٹی ایم خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں کافی مقبول ہے اور اس کے بقول وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور ان کے مطالبات میں فوجی آپریشنز اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج شامل ہیں۔
حکومت اور پی ٹی ایم کے درمیان تعلقات ہمیشہ تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ اس سے پہلے پی ٹی ایم پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے تحت انہیں “قومی سلامتی کے لیے خطرہ” قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے سیاسی استحکام کی خاطر پی ٹی ایم کے ساتھ بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے ایک اہم وجہ ملک کے مختلف سیاسی و سماجی گروپوں کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات کو حل کرنا ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ اقدام پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ قدم مستقبل میں بہتر تعلقات اور امن کی بحالی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔