کشمیر کا مسئلہ پرامن طریقے سے حل
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے
آج منگل کو وزیر اعظم آفس کے ترجمان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مسلسل اس بات کا دوبارہ اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کو اپنے دو طرفہ مسائل خصوصاً جموں و کشمیر کا بنیادی مسئلہ بات چیت اور پرامن طریقوں سے حل کرنا چاہیے۔
یہ بیان وزیر اعظم شہباز شریف کے العربیہ چینل کو انٹرویو کے حوالے سے سامنے آیا ہے جہاں انہوں نے جموں و کشمیر کو خود مختاری دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کی بھارت کی خلاف ورزی کے بارے میں طویل بات کی۔
غیر قانونی اقدام کو واپس
غیر قانونی اقدام کو واپس لینے کے بعد ہی مذاکرات ممکن ہیں
ترجمان نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف بارہا ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کو واپس لینے کے بعد ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ’بھارت کی جانب سے اس اقدام کو منسوخ کیے بغیر مذاکرات ممکن نہیں‘۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں | پاکستان: ملک بھر میں سال کی پہلی اینٹی پولیو کمپین لانچ کر دی
یہ بھی پڑھیں | پاکستان میں سائبر کرائم کو رپورٹ کیسے کریں؟
متحدہ عرب امارات کے دوران العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو
ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے دوران العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ موقف بالکل واضح کیا۔
انٹرویو کے دوران وزیر اعظم نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کے مطابق کشمیریوں کو دی گئی خودمختاری کی علامت کو غصب کیا ہے۔ یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری منسوخ کر دی گئی۔
بھارت بات چیت کے لیے تیار
انہوں نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بند ہونا چاہیے تاکہ دنیا بھر میں یہ پیغام جائے کہ بھارت بات چیت کے لیے تیار ہے۔
بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ رہنا ہے
شہباز شریف نے کہا کہ بھارت اور پاکستان پڑوسی ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے۔
بھارت کے ساتھ تین جنگیں
یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم امن سے رہیں اور ترقی کریں یا ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا کریں، اور وقت اور وسائل کو ضائع کریں۔ بھارت کے ساتھ ہماری تین جنگیں ہوئیں اور اس نے لوگوں کے لیے صرف غربت اور بے روزگاری کو جنم دیا۔
امن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں، خوشحالی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے لوگوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات اور روزگار فراہم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے وسائل کو بموں اور گولہ بارود پر ضائع نہیں کرنا چاہتے۔