متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد فلسطین کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا ہے جس کے بعد فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے احتجاجا اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے بیانات کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے امن معاہدہ کر کے الاقصی ، بیت المقدس اور فلسطین کے کاز کو دھوکہ دیا ہے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ فلسطینی امور میں مداخلت کرے۔
یاد رہے کہ فلسطین کے علاوہ مسلم امہ کے دو بڑے ممالک ترکی اور ایران کی جانب سے امارات کے اس فیصلے پر سخت تنقید کی گئی ہے۔
ترک وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل سے کوئی معاہدہ کرے یا مراعات دینے کی کوئی بات کرے۔ ترک کی جانب سے اسے منافقت پر مبنی ایک اقدام قرار دے دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تاریخ اور خطے کا ضمیر اس ناانصافی پر مبنی فیصلے کو کبھی نہیں بھولے گا۔
صدر طیب اردگان نے متحدہ عرب امارات سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ ان کی جانب سے صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا گیا ہے کہ ہم متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات معطل کرنے یا وہاں سے اپنا سفیر واپس بلوانے کے اقدامات کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے بیان میں امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کے بغیر خطے میں کوئی بھی پیش رفت قابل قبول نا ہو گی۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے فلسطینی عوام کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے جس کا خمیازہ متحدہ عرب امارات کو بھگتنا پڑے گا۔
امارات نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم نے اس فیصلے سے پہلے کسی سے صلاح مشورہ نہیں کیا نا ہی ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ہمارا فرض تھا۔ ہم ایک خود مختار ریاست ہیں اور اپنے مفادات اور حساب کتاب کو دیکھ کر اپنے ایک آزادانہ فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہ ہم ہمیشہ خودمختار فیصلے خود کریں گے۔