اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو اپنے اہل خانہ سے ملاقات اور اپنے بیٹوں سلیمان خان اور قاسم خان سے واٹس ایپ کالز کی اجازت دے دی۔ یہ فیصلہ عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری کی درخواست پر سامنے آیا۔
عمران خان کی اہل خانہ سے ملاقات اور واٹس ایپ کالز کی منظوری
عمران خان کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں اپنے اہل خانہ سے ملاقات اور بیٹوں سے واٹس ایپ کالز کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے اڈیالہ جیل حکام کو ہدایت دی کہ عمران خان کی ملاقاتوں اور واٹس ایپ کالز کے لیے سہولت فراہم کی جائے۔
بشریٰ بی بی سے ملاقات کے حوالے سے استفسار
عدالت نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے ملاقات کے حوالے سے بھی استفسار کیا۔ اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے عدالت کو بتایا کہ ملاقات کا انتظام جیل کے اندر ہی کیا جا سکتا ہے۔
پہلے حکم پر عملدرآمد میں رکاوٹ
عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ان کے مؤکل کو اہل خانہ سے ملاقات اور بیٹوں سے واٹس ایپ کالز کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس پر عدالت نے جیل حکام کو ہدایت دی کہ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے مزید رہنمائی لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔
درخواست کی تفصیلات
قبل ازیں، عمران خان کو جیل میں قانونی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ عدالتی احکامات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ جیل حکام کو عدالتی حکم نامے کے مطابق عملدرآمد کرنے کی ہدایت دیں۔
درخواست میں کی گئی اہم استدعائیں
- عمران خان کو پاکستان جیل قوانین 1978 کے تحت ہر ہفتے اہل خانہ اور وکلاء سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔
- انہیں جیل میں کتابیں، اخبارات اور دیگر مطالعے کا مواد فراہم کیا جائے۔
- ان کے بچوں کے ساتھ ہفتہ وار ٹیلیفونک گفتگو کو یقینی بنایا جائے۔
آئندہ سماعت کا وقت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس کی مزید سماعت کے لیے 27 جنوری کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔
یہ کیس پاکستان کے عدالتی نظام میں انسانی حقوق اور قانونی اصولوں کی عملداری کے حوالے سے ایک اہم مثال بن چکا ہے۔ عدالت کے اس اقدام کو نہ صرف عمران خان کے حامیوں بلکہ انصاف کے خواہاں تمام شہریوں کی جانب سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔