سعودی عدالت نے مکہ مکرمہ کی عظیم الشان مسجد کے سابق امام شیخ صالح آل طالب کو 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
ریاض، سعودی عرب میں خصوصی فوجداری عدالت (ایس سی سی) نے سابق امام کو ان کی سابقہ بریت کو تبدیل کرنے کے بعد 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
اتھارٹی پر تنقید کرتے ہوئے خطبہ دیا تھا
مختلف حقوق گروپوں کی رپورٹس کے مطابق، شیخ صالح کو 2018 میں سعودی حکام نے بغیر کوئی وجہ بتائے حراست میں لے لیا تھا جب انہوں نے تفریحی صنعت کو منظم کرنے والی سعودی تنظیم جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی پر تنقید کرتے ہوئے خطبہ دیا تھا۔
یہاں نوٹ کریں کہ شیخ صالح آل طالب کے عالمی سامعین ہیں جو یوٹیوب پر ان کے خطبات اور قرآنی تلاوتیں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ انہوں نے مملکت میں بڑھتے ہوئے کنسرٹس اور تہواروں کو ناپسند کیا ہے جو ملک کی مذہبی اور ثقافتی روایات کے خلاف ہیں۔
ان کی حراست سعودی ولی عہد، محمد بن سلمان کی سعودی معاشرے کی اصلاحی مہم اور مملکت کی تیل پر منحصر معیشت کے تنوع کے درمیان عمل میں آئی۔
یہ بھی پڑھیں | دوستی پر آمادہ نا ہونے پر انڈین شخص نے خاتون کو قتل کر دیا
یہ بھی پڑھیں | سالفورڈ، برطانیہ میں کونسلر بننے والی پہلی پاکستانی خاتون
جب سے ایم بی ایس نے ولی عہد کے طور پر ڈی فیکٹو اقتدار سنبھالا ہے، سعودی حکام نے مختلف نامور علماء اور اماموں کو حراست میں لیا ہے، جو ان کی اصلاحی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔
ان گرفتار شدگان میں سلمان العودہ بھی شامل ہیں، جنہوں نے سعودیوں سے خلیجی ملک کی ریاض کی طرف سے خطے کی وسیع ناکہ بندی کے بعد قطریوں کے ساتھ اپنے تنازعات کو حل کرنے کا مطالبہ کیا۔
ڈان کے ترجمان، عبداللہ الاؤد نے اس فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ محمد بن سلمان کی اصلاحات پر تنقید کرنے والے علماء اور ائمہ کو قید کی سزا کا سامنا کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہے۔
سلمان العودہ کے بیٹے علاؤد نے کہا ہے کہ سماجی تبدیلیوں پر تنقید کرنے پر جامع مسجد کے امام صالح آل طالب کو 10 سال قید کی سزا اور حقیقی سماجی اصلاحات کا مطالبہ کرنے پر خواتین کارکن سلمیٰ الشہاب کو 34 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام الطالب سمیت تمام سیاسی قیدیوں میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے پرامن طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کیا اور اس کی وجہ سے گرفتار ہوئے۔ یہ جبر ہر کسی کے خلاف بغیر کسی استثنی کے بند ہونا چاہیے۔