نومبر 2019 کے انتخابات سے قبل، سری لنکا کے صدارتی چیلنجر گوٹابایا راجا پاکسے نے ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کی تجویز پیش کی جسے الیکشن جیتنے کی چال کے طور پر لیا گیا۔
اس وقت کی وزیر خزانہ منگلا سماراویرا نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو 15 فیصد سے کم کر کے 8 فیصد کرنے اور دیگر محصولات کو ختم کرنے کے "خطرناک” وعدہ پر ایک بریفنگ طلب کی۔ اس کے نتیجے میں سری لنکا نے تقریباً کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں نسبتاً کم ریونیو اکٹھا کیا اور اس کے قرضوں کے زیادہ بوجھ نے اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے نقد رقم لینے پر مجبور کیا اور آخرکار یہ بات یہاں تک جا پہنچی کہ سری لنکا قرضوں کی ادائیگی سے قاصر رہا اوع دیوالیہ قرار پایا۔
آخر سری لنکا نے کون سی ایسی غلطیاں کیں جس کے نتیجے میں وہ دیوالیہ قرار پایا؟ پاکستان کو اس سے کیا سبق سیکھنا چاہیے۔ آئیے اس سلسلے میں 5 اہم چیزیں جانتے ہیں جن سے پاکستان کو بچنا چاہیے۔
اول۔ غیر ضروری قرضے
سری لنکا نے غیر ضروری قرضے لئے اور آخرکار یہ قرضے اتنے بڑھ گئے کہ سری لنکا قرضوں پر ہونے والے سود کی ادائیگی بھی نا کر پایا اور دیوالیہ قرار پایا۔
دوم۔ ٹیکس کی کم وصولی
سری لنکا نے الیکشن کمپین کے طور پر اپنے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو کم کیا جس کے نتیجے میں سری لنکا نے بہت کم ریوینیو جمع کیا اور پھر یہی کم ریوینیو ملک چلانے کے لئے کک پڑھ گیا اور یوں سری لنکا قرضوں کی ادائیگی نا کر سکا۔
یہ بھی پڑھیں | ورلڈ اکنامک فورم: بلاول بھٹو اجلاس میں شرکت کے لئے آج روانہ ہوں گے
سوم۔ غلط سرمایہ کاری
سری لنکا نے کچھ ایسے پراجیکس پہ بھاری سرمایہ کاری کی جس سے اسے نفع نا ہونے کے برابر ملا جبکہ یہ سرمایہ کاری چین سے بھاری قرضوں کے عوض کی گئی جیسا کہ ایک پورٹ بنائی گئی جسے بعد میں قرضوں کی ادائیگی نا ہونے کے باعث چین کے حوالے کرنا پڑا۔
چہارم۔ ایک ہی "پاکسا” خاندان کی حکومت
سری لنکا میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایک ہی خاندان برسراقتدار رہا ہے جس نے اقتدار کو اپنی لونڈی بنائی رکھا۔ کبھی کسی دوسرے لوگوں کو اوپر آ کر حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا گیا جس کے باعث یہ دن دیکھنے پڑے۔
پنجم۔ سیاحت کی کمی (کوویڈ19)
سری لنکا وہ ملک ہے جو سیاحت سے ملکی آمدنی کا 13 سے 14 فیصد حاصل کرتا تھا۔ لیکن 2019 میں کوویڈ کے بعد اس کی سیاحت پہ منفی اثر پڑا اور ایسٹر کے موقع پر بم دھماکہ بھی ہوا جس سے اس کا گراف گرا اور یوں سیاحت سے آنے والی رقم میں خاصی کمی آئی۔