اگر بیوی شوہر کے ناروا رویے یا ظلم کی وجہ سے خلع حاصل کرے تو اس کا حق مہرکا حق واپس نہیں جاتا , لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس راحیل کامران نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسلامی فقہ اور نکاح نامے کی شقوں کے مطابق شوہر اس وقت تک مہر ادا کرنے کا پابند ہے جب تک بیوی خُلع صرف اس بنیاد پر نہ لے کہ اسے شوہر ناپسند ہے اور شوہر پر کوئی الزام نہ ہو۔ زیرِ سماعت مقدمے میں بیوی نے شوہر کے ظالمانہ اور توہین آمیز رویے کے خلاف معتبر ثبوت پیش کیے جس پر عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ شوہر نے ان الزامات کی تردید نہیں کی اس لیے بیوی خُلع کی حقدار ہے۔
جج نے مزید کہا کہ خُلع کا تصور اسلام میں موجود ہے اور اس کا اطلاق نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے سورہ البقرہ کی آیات 228 اور 229 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ خُلع کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے۔ ساتھ ہی جسٹس راحیل نے ایسے عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا جن میں فرق واضح کیا گیا کہ اگر بیوی صرف ناپسندیدگی کی بنیاد پر خُلع لے تو مہر واپس کیا جا سکتا ہے لیکن اگر شوہر کا رویہ خراب ہو اور بیوی اس وجہ سے علیحدگی اختیار کرے تو وہ مہر کی مکمل حقدار رہتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ ہر کیس کی تفصیل سے جانچ کریں اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں کہ آیا مہر واپس ہونا چاہیے یا نہیں۔ اس مخصوص کیس میں عورت نے نو سال تک شادی نبھائی اور اپنی ذمہ داریاں پوری کیں لہٰذا اسے محروم کرنا ناانصافی ہوتی۔ آخر میں جج نے شوہر کی اپیل مسترد کر دی اور ساہیوال کی ماتحت عدالتوں کے اُن فیصلوں کو برقرار رکھا جنہوں نے بیوی کے حق میں فیصلہ دیا تھا.
یہ بھی پڑھیں : جسٹس علی باقر نجفی نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا