حکومت کے حمایت یافتہ وکلا کے گروپ میں نیی آئینی عدالت بنانے کے معاملے پر تقسیم پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت نے فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ کے قیام کا ارادہ ظاہر کیا ہے تاہم اس فیصلے پر خود حکومتی وکلا کے حلقوں میں اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
اسلام آباد بار کونسل، جس کی قیادت راجہ علیم عباسی کر رہے ہیں، نے اس عدالت کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے وابستہ وکلا رہنما بھی اس منصوبے کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں حالانکہ پیپلز پارٹی خود اس عدالت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔
اس تنازعے کے حوالے سے اسلام آباد میں ایک وکلا کنونشن بھی منعقد کیا گیا ہے جس میں حکومت کے اس منصوبے کے خلاف شدید مخالفت کی گئی۔
اس کنونشن کے دوران سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو کے تابع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی اس تجویز کے خلاف ہیں اور حکومت کے منصوبوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس نئی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کے ججز کی خود مختاری کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور اس تجویز کا مقصد عدلیہ پر حکومتی کنٹرول کو بڑھانا ہو سکتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اگر فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال رکھی جاتی ہے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونا پڑے گا۔
حکومت ابھی تک آئینی ترمیمی بل کے لیے پارلیمانی حمایت حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، جبکہ کئی حکومتی وکلا کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ میں آئینی مسائل کے لیے ایک الگ بینچ بنایا جائے۔