پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں ایک مکمل عدالت ریفرنس 25 اکتوبر کو منعقد ہو رہا ہے جس میں ان کی ریٹائرمنٹ کی مناسبت سے سپریم کورٹ کی طرف سے خصوصی تقریب رکھی گئی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی مدت ملازمت کے دوران عوامی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے، کئی اہم عدالتی فیصلے کیے۔ تاہم، انہوں نے روایتی الوداعی عشائیہ لینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس پر دو ملین روپے کا خرچ متوقع تھا جسے انہوں نے عوامی پیسوں کا غیرضروری استعمال قرار دیا۔
یہ تقریب ان کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد، عدالتی نظام کی اصلاحات، قانون کی بالادستی، اور ان کے اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے۔ دورانِ مدت، چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ ادارے افراد سے اہم ہیں اور ہر جج کی مدت ملازمت میں توسیع کی باتوں کو مسترد کیا۔ انہوں نے عدالت کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھنے کی کوشش کی جس پر اپوزیشن کی طرف سے حمایت اور حکومت کی طرف سے مخالفت سامنے آئی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اداروں کی مضبوطی کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور عہدے کے بعد بھی وہ ملک میں عدالتی نظام کی بہتری کے لیے اپنی خدمات دیتے رہیں گے۔ ان کی اس گفتگو نے عدلیہ کی خود مختاری کو اجاگر کیا اور ان کے بیانات سے یہ تاثر ملا کہ وہ عدالتی اقدار کو فروغ دینے کے حامی ہیں۔