سپریم جوڈیشل کونسلکے ارکان کو لکھے گئے ایک چونکا دینے والے خط میں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے ملک کے انٹیلی جنس اداروں پر عدالتی امور میں مداخلت کا الزام لگایا ہے جس میں ججوں پر ان کے رشتہ داروں کے اغوا، تشدد اور خفیہ نگرانی کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوششیں شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یہ خط چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور منیب اختر اور اسلام آباد ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹسوں کو بھیجا گیا۔
خط یہ بھی سوال کیا گیا کہ کیا ججوں کو ڈرانے اور مجبور کرنے کے لیے ریاستی سطح پر کوئی ادارے کام کر رہے ہیں؟
یاد رہے کہ 25 مارچ کو لکھے گئے خط پر جسٹس محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحاق خان، ارباب محمد طاہر اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سمن رفعت امتیاز کے دستخط موجود ہیں۔
خط میں انٹیلی جنس حکام کی جانب سے مختلف مقدمات کے تناظر میں مبینہ مداخلت اور دھمکی کے سات واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جس میں عمران خان سے متعلق کیس بھی نوجود ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ایک کیس میں صورتحال اس قدر کشیدہ ہو گئی کہ ایک جج کو ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
چھ ججوں کے مطابق یہ معاملہ آئی ایچ سی کے چیف جسٹس اور اس وقت کے چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا گیا تھا۔ سابق جج نے ججوں کو بتایا کہ اس نے آئی ایس آئی کے ڈی جی-سی سے بات کی ہے اور انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کا کوئی اہلکار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں سے رابطہ نہیں کرے گا۔
تاہم خط میں شکایت کی گئی ہے کہ چیف جسٹس کی یقین دہانی کے بعد بھی انٹیلی جنس آپریٹو کی طرف سے مداخلت جاری ہے۔
خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے بہنوئی کو مسلح افراد کے ذریعے اغوا کرنے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
متاثرہ شخص کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور جج کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے اور ویڈیو ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اس خبر کے بعد انٹرنیشنل میڈیا بھی اس پر خوب کلام کر رہا ہے۔