اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگیوں کے کیس میں خفیہ اداروں کے افسران کو طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے ان اداروں کے کام پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے جنہیں گمشدہ افراد کے کیسز کی تحقیقات سونپی گئی ہیں۔
ایک بڑے بینچ، جس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر شامل تھے، نے اس معاملے کی سماعت کی۔ کیس میں زیادہ تر گمشدہ بلوچ طلباء کے معاملات زیر بحث آئے۔
عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے درخواست دی کہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے کیونکہ ان کی شناخت ظاہر ہونے سے ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس پر عدالت نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سماعت ان کیمرہ ہوگی، جہاں ان اہلکاروں کو بریفنگ دینے کے لیے بلایا جائے گا۔
ایمان مزاری ایڈوکیٹ، جو گمشدہ افراد کی وکیل ہیں، نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں 187 افراد غائب ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر بلوچ ہیں۔
عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ گمشدہ افراد کی معلومات فراہم کرے، چاہے وہ افغانستان یا کشمیر میں گرفتار ہوں۔ مزید برآں، بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل کو آئندہ سماعت میں پیش ہونے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
یہ کیس انسانی حقوق اور انصاف کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر بلوچستان جیسے علاقوں میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کافی سنگین ہو چکا ہے۔