اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اختلافات بڑھنے پر 6 رکنی جنگی کابینہ تحلیل کردی۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب مقبوضہ فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں جنگ جاری رکھنے پر اختلافات کی بنا پر جنگی کابینہ میں شامل دو وزرا نے استعفیٰ دے دیا۔
ان وزرا کے مستعفی ہونے کے بعد نیتن یاہو پر انتہاپسند جماعتوں کی جانب سے دباؤ تھا کہ وہ جنگی کابینہ میں نئے ارکان کو شامل کریں، تاکہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھا جا سکے۔ تاہم، آج اسرائیلی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ جنگی کابینہ تحلیل کردی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ بینی گینٹز کے مستعفی ہونے کے بعد جنگی کابینہ کی ضرورت نہیں رہی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بینی گینٹز اسرائیلی اپوزیشن رہنما ہیں، لیکن 7 اکتوبر کے بعد بنائی جانے والی 6 رکنی جنگی کابینہ کا حصہ تھے۔ گینٹز کے استعفے کے بعد، انہوں نے مقامی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو جنگ میں ہمیں حقیقی کامیابی کی جانب بڑھنے سے روک رہے ہیں، اسی لیے ہم نے ایمرجنسی کابینہ چھوڑ دی۔
گینٹز کے مطابق، نیتن یاہو کی حکمت عملی نے اسرائیلی حکومت کو غزہ میں فوجی کارروائیوں میں ناکامی کی طرف دھکیلا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگی کابینہ کے تحلیل ہونے سے اسرائیلی حکومت کی پالیسی میں خلل آ سکتا ہے اور عوامی حمایت میں کمی آ سکتی ہے۔
دوسری جانب، سابق اسرائیلی سفارتکار الون نے کہا کہ نیتن یاہو کے جنگی کابینہ کے خاتمے کے فیصلے کے بعد غزہ اور لبنان میں اسرائیلی حملے بڑھنے کا امکان ہے۔ الون نے مزید کہا کہ نیتن یاہو اب ممکنہ طور پر زیادہ جارحانہ حکمت عملی اپنائیں گے تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے اور انتہاپسند جماعتوں کی توقعات کو پورا کیا جا سکے۔
الون نے خبردار کیا کہ جنگی کابینہ کے تحلیل ہونے سے اسرائیل کی اندرونی سیاست میں مزید بحران پیدا ہو سکتا ہے اور فوجی کارروائیوں کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور مستقبل قریب میں اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
غزہ اور لبنان میں ممکنہ حملوں کی بات کرتے ہوئے، الون نے کہا کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں مزید بڑھ سکتی ہیں، جو خطے میں امن و امان کی صورتحال کو مزید بگاڑ سکتی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کو اب نئی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی تاکہ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کا مقابلہ کیا جا سکے۔