’’مجھے ایک درجن تندرست بچے دو، اور مجھے یہ موقع دو کہ میں ان کی اپنی مخصوص دنیا میں پرورش اور تربیت کر سکوں، تو میں ان بچوں کو کسی بھی میدان میں ماہر بنا سکتا ہوں، چاہے وہ ڈاکٹر ہو، وکیل ہو، فنکار ہو، تاجر ہو یا فقیر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ الفاظ ایک صدی قبل کے مشہور امریکی ماہر نفسیات جان واٹسن کے ہیں، جنہیں نظریہ کردار کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔
واٹسن کے یہ الفاظ ہمارے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ بچوں کو اسکول میں ایک خوشگوار اور مددگار ماحول فراہم کر کے انہیں اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ زندگی کے جس شعبے میں بھی چاہیں کامیابی حاصل کر سکیں۔ اور اس نیک کام میں ایک بچے کا سب سے بڑا مددگار اس کا استاد ہی ہو سکتا ہے۔
کئی لوگ اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور جتنی عمدگی سے ماں کی تربیت بچے کی شخصیت کی بنیاد اٹھاتی ہے، اتنی عمدگی سے استاد شاید نہیں کر پاتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بچہ سب سے پہلے اگر کسی شخصیت کو تسلیم کرتا ہے یا اس کا اثر قبول کرتا ہے تو وہ اس کی ماں ہی ہوتی ہے۔ مگر ماں کا دائرہ عمل بہت محدود ہوتا ہے۔ وہ گھر کی چار دیواری سے لے کر محلے تک بچے کو سمجھا سکتی ہے، اس کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ اس سے آگے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے۔ اور یہاں سے استاد کا کردار حقیقی معنوں میں شروع ہوتا ہے، جب بچہ گھر اور محلے سے نکل کر اس سے آگے کی دنیا کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
بچے کی طبعی عمر اور ذہنی عمر
بچوں کو اسکول میں ان کی طبعی عمر کے مطابق داخل کیا جاتا ہے۔ یہ عمر اس مخصوص جماعت میں موجود طلباء کی تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے۔ اسی عمر کے لحاظ سے بچہ اسکول کے تعلیمی مراحل طے کرتا ہے۔
جیسے جیسے اس کی طبعی عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے وہ اسکول کے تعلیمی مراحل میں آگے بڑھتا جاتا ہے۔ طبعی عمر کے ساتھ ساتھ بچے کی ذہنی عمر بھی اس کی شخصی نشونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس طرح طبعی عمر بچے کی پیدائش سے لے کر اس وقت تک کے سالوں کو ظاہر کرتی ہے، اسی طرح ذہنی عمر بچے کی ذہانت اور فطانت کی بتدریج بڑھوتری کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ دونوں بظاہر بالکل مختلف تصورات ہیں، مگر درحقیقت دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان دونوں کا بچے کی شخصیت پر مختلف اثر ہوتا ہے۔ طبعی عمر بچے کی خوراک یا اس کی صحت سے متعلق ہوتی ہے، جبکہ ذہنی عمر بچے کی ذہنی صحت سے متعلق ہوتی ہے۔
اگر ہم معاشرے میں صحتمند افراد کا اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں بچوں کی جسمانی صحت پر زور دینا چاہیے، اور اگر ہم معاشرے میں ذہنی طور پر مضبوط اور صحتمند افراد کا اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں بچوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
استاد کا کلیدی کردار
جسمانی صحت کی ذمہ داری اگر گھر کی ہے تو ذہنی صحت کی ذمہ داری اسکول کی اور اسکول میں خاص طور پر استاد کی ہے۔ اسکول میں داخل ہونے کے بعد بچہ کیا سیکھے گا اور کیسے سیکھے گا، ان سب کا فیصلہ استاد کرتا ہے۔
اگر استاد بچے کو ایک مددگار اور پرسکون ماحول فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بچہ بغیر کسی ذہنی دباؤ کے اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذہنی استعداد کو بڑھا سکتا ہے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ استاد کا بچے کے ساتھ رویہ بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اگر استاد کا رویہ ایک ہمدرد، ایک رہنما اور ایک مددگار کا ہوگا تو بچہ سیکھنے کے عمل کو خوشی خوشی گزارے گا۔ اور اگر استاد کا رویہ ایک آمر کا ہے جس کی کہی ہوئی بات حرف آخر ہو اور وہ بچوں کو کچھ نیا سیکھنے یا سوال پوچھنے کا موقع نہ دے تو بچے کی ذہنی صلاحیتیں بڑھنے کی بجائے منجمند ہو جائیں گی۔ ایسا بچہ طبعی لحاظ سے تو اپنی عمر میں آگے بڑھتا جائے گا، مگر اس کی ذہنی عمر نہیں بڑھ پائے گی، جس کا براہ راست اثر اس کی ذہنی صحت پر پڑے گا۔ ایسے اساتذہ اور ایسا ماحول صرف ڈرے سہمے اور رٹو طوطے بچے پیدا کریں گے، جو کچھ نیا سیکھنا یا سمجھنا نہیں چاہتے۔
ایک اچھا استاد وہ ہے جو بچوں کو یہ ضرور بتائے کہ کہاں دیکھنا ہے، مگر یہ نہ بتائے کہ کیا دیکھنا ہے۔ یعنی بچے کو معلومات یا علم ضرور مہیا کرے مگر انہیں اس قابل بھی بنائے کہ وہ ان معلومات یا دیے گئے علم سے خود فائدہ اٹھائیں۔
استاد چاہے تو وہ بچے کے سیکھنے کے عمل کو خوشگوار بنا دے، چاہے تو بچے کے لیے اس عمل کو صرف ایک عمل ہی رہنے دے جسے پایہ تکمیل تک پہنچانا اس کی مجبوری بن جائے۔
اس بات پر جتنا بھی زور دیا جائے اتنا کم ہوگا کہ ایک اچھے ماحول میں سیکھنے کا عمل بچوں کی ذہنی صحت پر اچھا اثر ڈالتا ہے، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے، ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی ڈھونڈ سکیں اور انہیں بہتر سے بہتر بنا سکیں۔
جبکہ سختی اور تنگی والا ماحول بچوں کی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتوں پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ اسکول کے ماحول کو قابل قبول یا ناقابل برداشت بنانا استاد کے ہاتھ میں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک استاد بچے کی ذہنی صحت اور اس کی شخصی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے یا کر سکتا ہے۔
ہم من حیث القوم استاد کو جتنا اختیار دیں گے کہ وہ بچے کی ذہنی نشونما پر اثر انداز ہو سکے اور اسے ایک بہترین ماحول سیکھنے کے لیے فراہم کر سکے، اتنا ہی ہماری آنے والی نسل جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہوگی۔