علی بلال کار حادثے میں جاں بحق ہوئے
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہ کے کارکن علی بلال کی پولیس حراست میں ہلاکت ہوئی، پنجاب کے عبوری وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے اج ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نوجوان کی موت ایک کار حادثے میں ہوئی۔
انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) عثمان انور کے ہمراہ لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محسن نقوی نے پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے کیے جانے والے دباؤ اور پروپیگنڈے کے سامنے نہ جھکنے کا عزم کیا۔
پنجاب پولیس نے علی بلال کو ہلاک کیا: پی ٹی آئی
پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب پولیس نے اس کے کارکن علی بلال کو ہلاک کیا ہے جسے ضلّے شاہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بدھ کے روز زمان پارک میں تصادم کے دوران ایسا ہوا۔
بدھ کو محکمہ داخلہ پنجاب نے لاہور میں سات روز کے لیے سنگین سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔ تصادم اس وقت ہوا جب پولیس نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ پر پی ٹی آئی کارکنوں کے اجتماع کو روکنے کی کوشش کی۔
بلال کی موت کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ بلال کو ایک نجی 4X4 گاڑی میں ہسپتال لایا گیا جو کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
واقعہ کی ٹائم لائن
پنجاب حکومت نے واقعے کی ٹائم لائن بھی جاری کر دی ہےجس میں پولیس وین سے کارکنوں کے فرار اور سروسز ہسپتال میں نجی گاڑی کی آمد کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں | فلائی جناح : کیا آپ کو ملک کے اندر سفر کے لئے اسے استعمال کرنا چاہیے ؟
تحقیقات کے دوران جمع کیے گئے واقعے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے، محسن نقوی نے کہا کہ راجہ شکیل نے پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کو بتایا کہ اس شخص کو گاڑی نے ٹکر ماری تھی۔
اس پر یاسمین راشد نے پی ٹی آئی کے سنٹرل پنجاب ونگ کے رکن شکیل کو اپنے ساتھ زمان پارک آنے کو کہا اور وہ ڈرائیور کو گاڑی میں چھوڑ کر سابق وزیر صحت کے ساتھ چلی گئیں۔ اس نے بتایا کہ ڈاکٹر یاسمین پھر زمان پارک گئی اور شکیل سے کہا کہ فکر نہ کرو۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ یاسمین نے سارا واقعہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو بتایا اور شکیل کو زمان پارک سے واپس بھیج دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گاڑی کے ڈرائیور نے بھی داڑھی منڈواتے ہوئے اپنا حلیہ بدل لیا ہے۔ امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں 30 اپریل کو انتخابات ہونے والے ہیں اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اپنی ریلی چند دن بعد نکالنی چاہیے تھی۔
محسن نقوی نے کہا کہ عورت مارچ کی وجہ سے دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی۔