اگر آپ رات کے 3 بجے دبئی کی سڑکوں پر اکیلے چل رہے ہوں تو آپ کے ذہن میں پہلا خیال کیا آئے گا؟ شاید یہ کہ "ٹیکسی کہاں ملے گی؟” یا "کھانے کی کون سی دکان کھلی ہے؟”۔ لیکن اگر آپ یہی کام لندن، پیرس یا نیویارک کی کسی سڑک پر کریں تو پہلا خیال غالباً اپنی جان و مال کی حفاظت کا ہوگا۔
یہ فرق محض اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی اس کا تعلق مذہب یا نظریات سے ہے۔ یہ گڈ گورننس (Good Governance) اور قانون کے سخت نفاذ (Strict Enforcement) کا براہِ راست نتیجہ ہے۔
مغربی میڈیا اکثر دبئی کے بارے میں ایسی کہانیاں پیش کرتا ہے جو یہاں بسنے والے لاکھوں غیر ملکیوں (Expats) کی حقیقت سے میل نہیں کھاتیں۔ آئیے اس تضاد کی وجہ اور دبئی کے "سیفٹی ماڈل” کا جائزہ لیں۔
قانون سب کے لیے واضح ہے
دبئی اور متحدہ عرب امارات (UAE) کی کامیابی کا راز ان کا "غیر مبہم عدالتی نظام” ہے۔ مغرب میں قانون کی تشریح اکثر سیاسی بحث بن جاتی ہے جبکہ دبئی میں یہ ایک انتظامی حقیقت ہے۔
- چاہے آپ ٹریفک کی خلاف ورزی کریں یا کسی کو ہراساں کریں قانون فوراً حرکت میں آتا ہے۔
- یو اے ای میں قانون نافذ کرنے والے ادارے خود بھی جوابدہ ہیں اور ان کا بنیادی مقصد "عوام کا اعتماد” برقرار رکھنا ہے۔
تحفظ کوئی معجزہ نہیں ہوتا یہ ایک شعوری فیصلہ ہے جو ریاست کرتی ہے۔ دبئی نے فیصلہ کیا کہ وہ "عدم برداشت” (Zero Tolerance) کی پالیسی اپنائے گا اور اس پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
زمینی حقائق: پاکستانیوں کی زبانی
مغربی میڈیا اکثر دبئی کے حوالے سے اکا دکا واقعات کو بنیاد بنا کر پورے سسٹم پر سوال اٹھاتا ہے لیکن یہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی کا تجربہ (Lived Experience) ایک الگ ہی کہانی سناتا ہے۔
پاکستانی بلاگر کا تجربہ : "سیفٹی ایک لائف اسٹائل ہے”
پاکستانی بلاگر نور فاطمہ نے میڈیم (Medium) پر ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا جس میں انہوں نے لاہور اور مغربی ممالک کے مقابلے میں دبئی کے سکون کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق یہ ذہنی سکون کسی بھی قیمت سے بالاتر ہے۔
[ یہاں کلک کریں اور نور فاطمہ کا مکمل آرٹیکل پڑھیں]
"میری بہن جب لاہور سے دبئی آئیں تو وہ حیران رہ گئیں کہ یہاں خواتین صبح 5 بجے اکیلے جاگنگ کرتی ہیں۔ یہ خوف سے آزادی ہے جو ہمیں یہاں ملتی ہے۔”
رات 3 بجے اکیلے سفر : ویڈیو ثبوت
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون رات کے ڈھائی بجے دبئی کی سڑکوں پر اکیلے چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں وہ ایسا کرتے ہوئے ذرا بھی خوف محسوس نہیں کرتیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو جس نے مغرب کے "غیر محفوظ” ہونے کے دعووں کا عملی جواب دیا۔
ہراسانی پر "زیرو ٹالرینس” بمقابلہ سست عدالتی نظام
خواتین کی حفاظت کے حوالے سے دبئی کا ریکارڈ مغربی شہروں سے کہیں بہتر کیوں ہے؟ اس کی وجہ "فوری انصاف” ہے۔
مغرب میں ہراسانی یا اسٹریٹ کرائم کے مقدمات مہینوں بلکہ سالوں تک عدالتی کارروائیوں میں لٹکے رہتے ہیں۔ اکثر مجرم "سسٹمز کی خامیوں” کا فائدہ اٹھا کر چھوٹ جاتے ہیں۔
یہاں ہراسانی (چاہے وہ ڈیجیٹل ہو یا جسمانی) پر سخت ترین سزائیں اور جرمانے ہیں اور غیر ملکیوں کے لیے فوری ڈیپورٹیشن (Deportation) کا عمل لاگو ہوتا ہے۔
قانون کا خوف : "سونا بھی محفوظ ہے”
قانون کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ لوگ اپنی قیمتی اشیاء گاڑیوں پر چھوڑ جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک لڑکی نے تجرباتی طور پر اپنی گاڑی پر زیورات اور قیمتی سامان چھوڑا اور گھنٹوں بعد بھی وہ وہیں موجود تھا۔
"یہ ایمانداری نہیںیہ یقین ہے کہ کیمرے دیکھ رہے ہیں اور قانون فوراً حرکت میں آئے گا۔”
یہ "کلچر” نہیں، "نفاذ” ہے
بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ عرب کلچر میں جرم کم ہوتا ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن اصل وجہ جدید ٹیکنالوجی اور نگرانی ہے۔
دبئی کے "اسمارٹ کیمرے” اور "AI پولیسنگ” مجرم کو چھپنے کا موقع نہیں دیتے۔
شہریوں کو یقین ہے کہ اگر ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ یہ "یقین” مغربی شہروں میں تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔دبئی نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ جدید شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے صرف باتیں نہیں بلکہ سخت فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مغرب کو اپنی "آزادی” کی بحث میں الجھنے کے بجائے دبئی کے "نفاذِ قانون” کے ماڈل سے سیکھنا ہوگا کہ سیفٹی ایک پالیسی چوائس ہے قسمت کا کھیل یا کلچر نہیں۔





