ابوظہبی: بانیٔ متحدہ عرب امارات، شیخ زاید بن سلطان آل نہیان کی شخصیت اپنے اندر ایمان، سخاوت اور وسیع القلبی کا ایسا امتزاج رکھتی تھی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ وہ نہ صرف ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ انسانیت کے علمبردار بھی تھے۔ ان کے اقوال آج بھی امارات کی پالیسی اور معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔
جب بعض ناقدین نے شیخ زاید سے کہا کہ "آپ کی آبادی کا 80 فیصد حصہ غیر ملکیوں پر مشتمل ہے” تو ان کا جواب تاریخ کا حصہ بن گیا۔ انہوں نے کہا:
"رزق اللہ کا رزق ہے، مال اللہ کا مال ہے، فضل اللہ کا فضل ہے، مخلوق اللہ کی مخلوق ہے، زمین اللہ کی زمین ہے، اور جو ہمارے پاس آئے وہ خوش آمدید ہے۔”
یہ الفاظ صرف ایک بیان نہیں بلکہ شیخ زاید کے گہرے عقیدے اور عملی فلسفے کا عکاس ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ دنیاوی وسائل کسی فرد یا قوم کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہیں۔ لہٰذا جو بھی امارات آتا ہےچاہے وہ مزدور ہو یا سرمایہ کار، وہ اسی عطا کا حصہ دار ہے.
غیر ملکی برادری کا دفاع
امارات میں بھارتی اور پاکستانی برادری سمیت لاکھوں غیر ملکی دہائیوں سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ تنقید کے مقابلے میں شیخ زید نے ہمیشہ ان برادریوں کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ لوگ صرف محنت کش نہیں بلکہ وہ ستون ہیں جن پر امارات کی تعمیر کھڑی ہے۔ جدید عمارتیں، سڑکیں، اسپتال، تعلیمی ادارے اور صنعتیں سب میں ان کی محنت شامل ہے۔
مساوات اور شمولیت کا پیغام
شیخ زاید نے کبھی اماراتی اور غیر اماراتی کو الگ خانوں میں بانٹنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا اصول یہ تھا کہ جو بھی یہاں رہتا اور کام کرتا ہے وہ اسی معاشرے کا رکن ہے۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے غیر ملکیوں کو زمین خریدنے اور کاروبار میں شمولیت کا موقع دیا۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ تھا جس نے امارات کو باقی خطے سے منفرد بنا دیا
ورثہ جو آج بھی زندہ ہے
شیخ زاید کی بصیرت اور رواداری کا نتیجہ ہے کہ آج متحدہ عرب امارات دنیا کے اُن چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں مختلف قومیتیں، مذاہب اور ثقافتیں امن و سکون کے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ ورثہ صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی اور انسانی بھی ہے۔
شیخ زایدؒکی میراث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایک ملک کی اصل طاقت صرف اس کے قدرتی وسائل میں نہیں بلکہ اس کے لوگوں کی محنت، اتحاد اور باہمی احترام میں ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو آج بھی امارات کے ترقیاتی ماڈل کی بنیاد ہے۔