پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے دونوں ممالک کے سفارتی تجارتی اور فضائی تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے جواب میں نہ صرف تمام تجارتی اور دوطرفہ معاہدے معطل کر دیے بلکہ فضائی حدود بھی بھارتی پروازوں کے لیے بند کر دی ہے۔ ان اقدامات کا اعلان اسلام آباد میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی (NSC) کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت وزیر اعظم شہباز شریف نے کی۔ اجلاس میں پہلگام حملے اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے کی جانے والی یکطرفہ کارروائیوں پر غور کیا گیا جس میں سب سے اہم فیصلہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی معطلی تھی۔
بھارت نے پاہلگام حملے جس میں 26 افراد جاں بحق ہوئے کے بعد پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے حملے میں ملوث عناصر کی حمایت کی۔ پاکستان نے ان الزامات کو بے بنیاد سیاسی محرکات پر مبنی اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ NSC کے اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر بھارت نے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا موڑنے کی کوشش کی تو اسے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ اس معاہدے کو عالمی بینک کی ثالثی سے طے کیا گیا تھا اور یہ دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان آبی تعاون کی بنیاد رہا ہے۔
پاکستان نے نہ صرف واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ سارک ویزا اسکیم کے تحت دی گئی تمام بھارتی ویزے بھی منسوخ کر دیے سوائے سکھ زائرین کے ساتھ ہی بھارتی سفارتخانے میں کام کرنے والے دفاعی فضائی اور بحری مشیروں کو 30 اپریل تک ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے جبکہ سفارتکاروں کی تعداد کم کر کے 30 کر دی گئی ہے۔
مزید برآں پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات بھی معطل کر دیے چاہے وہ براہ راست ہوں یا کسی تیسرے ملک کے ذریعے۔ پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل کا مقصد اپنی خودمختاری سلامتی اور آبی حقوق کا دفاع کرنا ہے۔ حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ قوم امن کی خواہاں ہے لیکن اپنی خودمختاری اور حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
بھارت نے جوابی طور پر پاکستانی حکومت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو اپنی حدود میں بند کر دیا اور پاکستانی شہریوں کو 29 اپریل تک ملک چھوڑنے کی ہدایت کی۔ اس کے علاوہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں کی تعداد بھی کم کی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ کشیدگی 2019 کی پلوامہ-بالاکوٹ بحران کے بعد سب سے بڑا بحران بن چکی ہے اور اگر فوری سفارتی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ خطے میں دیرپا تنازعات کو جنم دے سکتی ہے خاص طور پر پانی جیسے حساس مسئلے پر۔
دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حملے کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت دہشتگردوں اور ان کے معاونین کو دنیا کے کونے کونے سے ڈھونڈ نکالے گا اور انہیں سخت سزا دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قوم کی قوت ارادی دہشتگردوں کی کمر توڑ دے گی۔
یہ کشیدہ صورت حال دونوں ممالک کے درمیان موجودہ سفارتی تعلقات کے لیے ایک بڑا امتحان بن چکی ہے اور عالمی برادری کی نظریں اب ان اقدامات پر مرکوز ہیں کہ آیا یہ دونوں ایٹمی طاقتیں اس کشیدگی کو سفارتی ذرائع سے سلجھا پاتی ہیں یا نہیں۔