وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت "پیکا ایکٹ” میں کسی بھی متنازع شق پر بات چیت کے لیے تیار ہے، تاہم ابھی تک کسی نے اس کی مخصوص شقوں پر بات نہیں کی۔
پیکا ایکٹ: مقصد اور تنازعہ
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ نے وضاحت کی کہ "پیکا ایکٹ” سوشل میڈیا پر جعلی خبروں (Fake News) اور "ڈیپ فیکس” کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ان کے مطابق، پارلیمنٹ نے محسوس کیا کہ "سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی ضروری ہے”۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شق متنازع ہے تو حکومت اس پر نظرثانی کے لیے تیار ہے، لیکن ابھی تک کسی نے اس قانون کی شقوں پر بات نہیں کی، بلکہ محض احتجاج ہو رہا ہے۔
صحافیوں کو "سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی” میں شامل کرنے کا اعلان
وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ صحافیوں کو "سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی” میں شامل کیا جائے گا، جس میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ، میڈیا نمائندوں اور آئی ٹی ماہرین کو بھی "ٹرائبیونل” میں شامل کیا گیا ہے، جسے 24 گھنٹے کے اندر فیصلہ سنانے کا پابند بنایا گیا ہے۔
پیکا قانون کے خلاف صحافیوں کا ملک گیر احتجاج
پیکا ایکٹ میں حالیہ ترامیم کے خلاف صحافتی تنظیموں نے "یوم سیاہ” منایا اور ملک بھر میں احتجاج کیا۔
- پریس کلبز اور یونین دفاتر پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے۔
- صحافیوں نے سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج ریکارڈ کروایا۔
- کراچی پریس کلب میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ "یہ ترمیم جمہوری اصولوں اور آزادی اظہار کے خلاف ہے”۔
صحافیوں کے خدشات اور حکومتی تسلیم شدہ غلطی
مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما، سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک ٹی وی پروگرام میں اعتراف کیا کہ حکومت نے "عجلت میں” یہ قانون منظور کیا اور صحافیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا:
"یہ قانون جس پر مشاورت ہونی چاہیے تھی، وہ اب متنازع بن چکا ہے۔”
عدالتی کارروائی اور قانونی چیلنجز
لاہور ہائی کورٹ میں صحافی جعفر احمد یار نے پیکا ترامیم کے خلاف درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ یہ "آئین کے خلاف اور آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے مترادف” ہے۔
- جسٹس فاروق حیدر نے کیس کی سماعت کی اور فریقین سے تین ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
- عدالت نے کہا کہ تمام متعلقہ فریقین کا موقف سننے کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
آزادی صحافت کی بقا کی جنگ
صحافیوں کے مطابق، پیکا ایکٹ میں ترامیم صرف میڈیا کو دبانے کے لیے نہیں، بلکہ عام شہریوں کی آواز دبانے کے لیے بھی بنائی گئی ہیں۔
پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے اسلام آباد میں احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ہم کمزور ہو چکے ہیں، تو انہیں ہماری تاریخ دیکھنی چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ لڑائی ابھی یا کبھی نہیں” کی جنگ ہے، کیونکہ اگر "یہ قانون منظور ہو گیا تو میڈیا پر تالے لگ جائیں گے اور آزادی رائے مکمل طور پر دب جائے گی”۔
پیکا ایکٹ میں حالیہ ترامیم پر صحافتی برادری، سیاسی رہنما، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے، مگر دوسری جانب، صحافیوں کا موقف ہے کہ یہ قانون بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اسے واپس لینا ضروری ہے۔