پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کا سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی مارچ ڈی چوک پہنچ گیا ہے۔ اس مارچ کا آغاز خیبرپختونخوا سے ہوا اور مظاہرین نے اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے مختلف شہروں میں رکاوٹوں کا سامنا کیا۔ دو رینجرز اور مختلف پولیس والوں کے جاں بحق ہونے کے بعد اسلام آباد میں فوج طلب کر لی گئی ہے۔
مارچ کے دوران حکومت نے اسلام آباد کے داخلی راستوں کو کنٹینرز سے بند کر دیا ہے اور فوج کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکام نے اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخلے پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں اور احتجاج کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ مظاہرین ملک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے خبردار کیا کہ کسی کو ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری جانب، عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے کہا کہ مظاہرین اس وقت تک اسلام آباد ریڈ زون میں موجود رہیں گے جب تک عمران خان کو رہا نہیں کیا جاتا۔ انہوں جے ریڈ زون کے قریب پہنچ کر وکٹری کا نشان بھی بنایا۔
احتجاج کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ سڑکیں بند ہیں، موبائل نیٹ ورک محدود ہیں، اور تعلیمی ادارے بند کیے جا چکے ہیں۔ پولیس نے اب تک متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا ہے، اور مظاہرین کی تعداد بڑھنے کے ساتھ تناؤ مزید بڑھ رہا ہے۔